پاکستان اپنے کئی ملین شہریوں کی جاسوسی کر رہا ہے، ایمنسٹی
9 ستمبر 2025پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے منگل نو ستمبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں جس طرح کئی ملین شہریوں کی نگرانی کی جاتی ہے، وہ عوامی جمہوریہ چین سے باہر کسی بھی ملک میں سخت ریاستی نگرانی کی سب سے بڑی اور وسیع تر مثالوں میں سے ایک ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایسا ہر روز کروڑوں ٹیلی فون کالیں خفیہ طور پر سن کر، چین کی تیار کردہ اور پاکستان میں زیر استعمال ایک انٹرنیٹ فائروال کی مدد سے اور سوشل میڈیا پر سنسرشپ کی صورت میں کیا جا رہا ہے۔
جاسوسی کے لیے چینی اور مغربی ٹیکنالوجی کا استعمال
ایمنسٹی نے منگل نو ستمبر کے روز جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے بڑے ممالک میں شمار ہونے والے پاکستان میں ریاستی نگرانی کا یہ نیٹ ورک وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور اسے چینی ساختہ اور مغربی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئےبروئے کار لایا جاتا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ کہ جنوبی ایشیا کی اس ایٹمی طاقت میں اب آزادی اظہار رائے کے خلاف اور اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے کریک ڈاؤن بہت پھیل چکا ہے۔
ایمنسٹی کے مطابق پاکستان میں پہلے ہی سے محدود سیاسی اور میڈیا آزادیاں حالیہ برسوں میں مزید محدود ہو چکی ہیں، خاص کر 2022ء میں اس وقت کے بعد سے جب اس دور کے وزیر اعظم عمران خان کے طاقت ور ملکی فوج کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ اس کشیدگی کے بعد عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا تھا، وہ ابھی تک جیل میں ہیں اور ان کی پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔
پاکستانی انٹیلیجنس ادارے کیا کر سکتے ہیں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی انٹیلیجنس ادارے ایک وقت میں کم از کم بھی چار ملین موبائل فونز پر ہونے والی گفتگو خفیہ طور پر سن یا ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ ایسا Lawful Intercept Management System یا مختصراﹰ LIMS نامی نظام کی مدد سے کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ WMS 2.0 نامی فائر وال کے ذریعے ملک بھر میں انٹرنیٹ ٹریفک کے دو ملین تک فعال سیشنز کو بیک وقت بلاک کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان: وی پی این رجسٹریشن، صارفین کا تحفظ یا نگرانی؟
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی انٹیلیجنس اداروں کے زیر استعمال یہ دونوں نظام ایک دوسرے کے ساتھ مربوط حالت میں اس طرح کام کرتے ہیں کہ ایک مانیٹرنگ سسٹم کے تحت اگر خفیہ ایجنسیاں بیک وقت کئی ملین صارفین کی ٹیلی فون کالیں اور ٹیکسٹ پیغامات کی ٹَیپنگ کرتی ہیں تو دوسرا نظام ملک بھر میں سوشل میڈیا تک رسائی کو محدود کر دینے کے ساتھ ساتھ لاتعداد ویب سائٹس کو بلاک بھی کر دیتا ہے۔
سنی جانے والی کالوں کی تعداد کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ پاکستانی انٹیلیجنس ادارے جن ٹیلی فون نمبروں کی نگرانی کرتے ہوئے متعلقہ صارفین کی کالیں سنتے اور چیٹ پڑھتے ہیں، ان کی تعداد چار ملین سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
اس کے حق میں روئٹرز نے دلیل یہ دی ہے کہ پاکستان میں موبائل فون سروسز مہیا کرنے والے تمام چاروں بڑے آپریٹرز کو یہ ہدایت کی جا چکی ہے کہ وہ اپنے اپنے تکنیکی نظام کو LIMS نامی سسٹم کے ساتھ جوڑیں۔ یہ بات روئٹرز کو ایمنسٹی کے ٹیکنالوجی امور کے ماہر یُورے فان بَیرگے نے بتائی۔
فان بَیرگے کے مطابق، ''وسیع پیمانے پر جاسوسی اور نگرانی معاشرے میں سنسنی اور خوف پیدا کر دینے والے اثرات کا باعث بنتی ہیں اور یوں عام شہری اپنے آن لائن اور آف لائن حقوق کے استعمال کے حوالے سے خوف اور شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘
ایمنسٹی نے اپنی اس رپورٹ میں 2024ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کیے جانے والے اس مقدمے کا حوالہ بھی دیا، جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے اس وقت دائر کیا تھا، جب ان کی نجی ٹیلی کالیں، جو خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی تھیں، انٹرنیٹ پر لیک کر دی گئی تھیں۔
اس رپورٹ میں ایمنسٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ ویب لنکس بلاک ہیں اور ان تک رسائی ممکن نہیں، اس کے علاوہ یوٹیوب، فیس بک اور ایکس سمیت کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی بھی محدود ہے۔
ادارت: شکور رحیم