ون ڈے سیریز میں فتح کےبعد پاکستانی ٹیم وطن واپس
7 جنوری 2013اڑتیس سالہ مصباح الحق کے مطابق نئی دہلی کے سرد موسم اور بھارتی ٹیم کی شاندار فیلڈنگ کے باعث وہ سیریز میں وائٹ واش تو نہ کر سکے مگر بھارت کو بھارت میں ہرانا ان کے کیریئر کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
مصباح کا کہنا تھا کہ اس کامیابی کا کریڈٹ ٹیم اور ٹیم مینجمنٹ سے کرکٹ بورڈ تک ہر ایک کو جاتا ہے کیونکہ سب مل کر کام کر رہے ہیں۔ کھلاڑیوں نے ذہنی طور پر بھی طاقت دکھائی اور جی توڑ محنت کرکے اس چیلنج پر پورے اترے۔ ’’ایک ایسے وقت میں جب ہمیں اپنی کرکٹ دیار غیر میں کھیلنا پڑ رہی ہے ٹیم کی اس کارکردگی کا اعتراف ہونا چاہیے۔ اب پاکستانی کرکٹ کے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان نے تیرہ ماہ بعد دنیا کی کسی ٹیم کے خلاف ایک روزہ سیریز جیتی ہے۔ پاکستان کے سابق نامور ٹیسٹ کرکٹر نسیم الغنی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگوکرتے ہوئے بھارت میں کامیابی کو ٹیم ورک کا نتیجہ قرار دیا۔ نسیم الغنی کے بقول طویل عرصے کے بعد ٹیم ایک منصوبہ بندی کے مطابق کھیلی۔ ’’کھلاڑیوں میں اسپرٹ دکھائی دے رہی تھی اور ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ بھارت کو ہرانے کے بعد ہمیشہ پاکستانی کرکٹ ٹیم فتوحات کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے اور امید ہے کہ یہ ٹیم اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا جیسی ٹیموں کے خلاف بھی اچھے نتائج دے گی۔‘‘
اس دورے کے ساتھ ہی پاکستان کرکٹ میں فاسٹ بولنگ کا دور بھی واپس لوٹتا نظر آرہا ہے۔ ون ڈے سیریز میں صوابی سے تعلق رکھنے والے تئیس سالہ فاسٹ باولر جنید خان اور دنیا کے سب سے طویل قامت محمد عرفان نے اپنی تیز رفتار باولنگ سے کوہلی، یورواج اور سہواگ جیسے نامور بلے بازوں کی نیندیں حرام کیے رکھیں۔ جنید خان نے سیریز میں سعید اجمل کی طرح سب سے زیادہ آٹھ وکٹیں لیں۔ محمد عرفان اور عمر گل نے بھی تین تین شکار کیے۔
سابق کپتان اورفاسٹ بولنگ کوبام عروج پر پہنچانے والے وسیم اکرم بھی پاکستانی تیز بولرز کی کارکردگی کو سراہے بغیر نہ رہ سکے اور کہاکہ پاکستانی باولرز نے جس رفتار سے باولنگ کی بھی وہ بھارتیوں کے لیے قابل رشک تھی۔
سات فٹ اایک انچ قد کے مالک تیس سالہ محمد عرفان کے بارے میں وسیم کہتے ہیں،’عرفان بہت بہتر بولر بن کر سامنے آئے ہیں البتہ انہیں اپنی فٹنس پر اب بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘
موسم سرما میں بھارتی پچز میں نمی کے باعث بیٹسمیوں کے لیے یہ ایک مشکل سیریز ثابت ہوئی۔ پاکستانی اوپنر ناصر جمشید اور بھارتی کپتان دھونی کے علاوہ دونوں ٹیموں کا کوئی بھی بیٹسمین سو کا ہندسہ عبور نہ کرسکا۔ 23 سالہ ناصر جمشید نے دو یادگار سینچریوں کی مدد سے سب سے زیادہ دو سو اکیتالیس رنز بنا کر مین آف دی سیریز کا ایوارڈ حاصل کیا۔ محمد حفیظ ستانوے یونس خان چوہتر، شعیب ملک تریسٹھ اور مصباح ستاون رنز بنا سکے۔ کامران اکمل نے تو اسکوررز کو زحمت ہی نہ دی۔ بھارت کی طرف سے کپتان دھونی نے دو سو تین اور سریش رائنا نے بانوے رنز بنائے جبکہ گزشتہ سال کے ون ڈے کرکٹر آف دی ائیر ویرات کوہلی تیرہ رنز بنا سکے۔
سیریز کا آخری ایک روزہ بین الاقوامی میچ دیکھنے کے لیے ایک ہزار سے زائد پاکستانی دہلی پہنچے تھے مگر ان میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل جاوید میانداد شامل نہ تھے۔ میانداد کو بھارتی ویزا جاری کرنے پر سامنے آنے والے سخت ردعمل کے بعد جاوید کو دہلی ون ڈے دیکھنے کا ارادہ ترک کرنا پڑا۔ جاوید میانداد جنہیں بھارت کو مطلوب داؤدابراہیم کے سمدھی بننےکے بعد سے اس صورتحال کا سامنا رہا ہے اپنی برہمی نہ چھپا سکے مگر پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان ندیم سرور نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ میانداد کا تو بھارت جانے کا کبھی منصوبہ ہی نہ تھا۔ ندیم سرور کے مطابق، ’قومی ٹیم کے دورے سے پہلے کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں کے ویزے روٹین میں لگوائے جاتے ہیں اور میانداد کا ویزا بھی اسی روٹین کا حصہ تھا مگر اپنی دفتری مصروفیات کی وجہ سے ان کا بھارت جانے کا کبھی کوئی پروگرام نہیں تھا۔‘
پانچ برس بعد پاک بھارت کرکٹ کی بحالی پر اس سیریزکا تمام مالی منافع بھارتی بورڈ کے خزانے میں گیا ہے اب سوال یہ ہےکہ آیا بھارتی کرکٹ ٹیم بھی پاکستان کو اس کے ملک میں یا کسی تیسرے مقام پر میزبانی کا موقع دے گی۔ اس بارے میں کھیلوں کے تجزیہ کار قمر احمد کہتے ہیں کہ اب دونوں ملکوں کے درمیان ٹیسٹ سیریز ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں البتہ اس کا دارومدار اب بھی سیاسی درجہء حرارت پرہوگا۔ یاد رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھارت کو رواں برس اگست میں جوابی سیریز کھیلنے کی دعوت دی ہے
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: عاطف توقیر