وفاقی جرمن انتخابات، جرمنی کی ساکھ اورعالمی میڈیا
22 فروری 2025بریگزٹ کے بعد سے برطانیہ یورپ کی اقتصادی شہ رگ سمجھے جانے والے ملک جرمنی کی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ برطانوی روزنامے دی گارڈیئن کے تازہ ترین تبصرے میں تحریر کیا گیا ہے کہ جرمنی کے کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو اور کرسچن سوشل یونین سی ایس یو کے سینٹر رائٹ اتحاد کی کامیابی کا قوی امکان ہے اور اس طرح سوشل ڈیموکریٹ لیڈر اولاف شُولس کی جگہ فریڈرش میرس کے اگلے چانسلر ہونے کے امکانات کافی زیادہ ہیں۔
جرمن انتخابات: سرکردہ رہنماؤں کے درمیان اہم امور پر مباحثہ
میرس نے یوکرین اور ممکنہ تجارتی محصولات پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر ضروری دباؤ کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ روس کے بارے میں بڑھتے ہوئے غصے اور یورپی یونین کے مشرقی حصے کی حفاظت کی ضرورت کے پیش نظر، امکان ہے کہ میرس اولاف شولس کے مقابلے میں یورپی سطح پر زیادہ وسیع النظری اور فیصلہ کُن اقدامات کریں گے۔ شولس کی تمام تر توجہ اندرونی سیاست پر مرکوز ہونے کی وجہ سے جرمنی کے اہم ترین پڑوسی ملک فرانس کے صدر ایمانویل ماکروں برانگیختہ ہیں۔
شولس کی توجہ زیادہ اندرونی مسائل پر کیوں رہی؟
برطانوی اخبار دی گارڈیئن لکھتا ہے، ''اولاف شولس کے پاس اس کی وجوہات موجود تھیں۔ بین الاقوامی نقطہ نظر سے بھی تشویش کا باعث بنے ہوئے عوامل وہی ہیں جو، بہت سے رائے دہندگان کے لیے بھی تشویش کا سبب ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی طرف سے مشتبہ تارکین وطن کی طرف سے حالیہ مہینوں میں ہونے والے مہلک حملوں کو جرمنی میں آباد تارکین کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جس سے ان کے خلاف نفرت بڑھنے کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیگریشن کا موضوع جرمن انتخابات کے سیاسی ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔
فیکٹ چیک: روس، جرمن انتخابات پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے؟
انتہائی دائیں بازو کی جماعت کی مقبولیت کی وجوہات
برطانوی اخبار گارڈیئن لکھتا ہے، ''جرمنی میں طویل اقتصادی جمود کے باعث انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت کا عروج ہوا۔ کورونا کی وبا کے بعد، جرمنی کا کاروباری ماڈل کریش کر گیا اور اور پھر روس سے خریدی جانے والی توانائی کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ جرمنی میں سود کی شرح بلند ہوئی اور اس کی برآمدات میں کمی نے جرمن اقتصادایت کو مزید مشکل میں ڈال دیا۔ جرمنی میں کووڈ کے بعد سے، تقریباً صنعتی شعبے کی قریب ایک ملین ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں، ایک ایسے ملک میں جو خود کو یورپ کا صنعتی پاور ہاؤس ہونے پر فخر کرتا تھا۔ ان تمام عوامل کی ذمہ داری اولاف شُولس کے کندھوں پر آ گئی۔‘‘
یورپ کے قلب میں واقع جرمنی کی اہمیت
اخبار دی گارڈیئن کے مطابق عالمی منظر نامے پر اچانک الگ تھلگ ہوتے یورپ کو ایک خوشحال، پُر اعتماد اور مضبوط جرمنی کی ضرورت ہے۔ فی الوقت جرمنی کا سیاسی منظر نامہ بکھرا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اتوار 23 فروری کے پارلیمانی انتخاب کے بعد برلن میں ایک وسیع مخلوط حکومت بنتی دکھائی دے رہی ہے جس کی قیادت متوقع طور پر قدامت پسند جماعتوں سی ڈی یو/ سی ایس یو کی طرف سے چانسلر کے اُمیدوار فریڈرش میرس کریں گے جن کی کوشش ہو گی کہ یورپی اتحادیوں کی جرمنی سے جو توقعات ہیں اُس پر پورا اترنے کے لیے جرمنی کو تیار کریں۔
جرمن انتخابات: چانسلر شولس اور حریف میرس میں پہلا مباحثہ
اے ایف ڈی ایک '' ٹرمپین‘‘ متبادل
دی گارڈیئن لکھتا ہے، ''قدامت پسند جماعتوں سی ڈی یو/ سی ایس یو کی حکومت بننے کے واضح امکانات کے درمیان انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی خود کو 'ٹرمپین متبادل‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں ہے، جس پر ایلون مسک اور امریکی نائب صدر، جے ڈی وینس بات کر چُکے ہیں۔ شاذ و نادر ہی اعتدال اور اتفاق کی سیاست کی کامیابی اتنی اہم رہی ہو گی جتنی کہ اب ہے۔
جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد کے دور میں، اس سے پہلے کبھی بھی جرمنی کے اندر اور باہر سیاسی استحکام کے داؤ پر لگے ہونے کا احساس اس وقت کے مقابلے میں کبھی بھی اتنا بلند نہیں تھا۔‘‘
امریکی براڈ کاسٹر سی بی ایس
جرمنی کے ممکنہ اگلے چانسلر فریڈرش میرس کون ہیں؟
نظریاتی طور پر قدامت پسند کاروباری شخصیت، 69 سالہ میرس کے جرمنی کے آئندہ چانسلر بننے کی قوی توقع ہے۔ سیاست کے لیے سیدھے سادھے نقطہ نظر کے لیے مشہور، میرس نے جرمنی کی جمود کی شکار معیشت کو بحال کرنے، ٹیکس کم کرنے اور امیگریشن پالیسیوں کو سخت کرنے کا وعدہ کیا ہے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ ملک کو عالمی سطح پر زیادہ مسابقتی بننے کی ضرورت ہے۔
جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟
میرس یورپی سلامتی کے خدشات اور روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے 2028ء کے بعد اپنے سالانہ دفاعی اخراجات کو موجودہ 50 بلین یورو سے بڑھا کر 80 یا 90 بلین یورو کر دینے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی دہائیوں پرانی نیٹو رفاقت کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔
ک م/ا ب ا ( دی گارڈیئن، سی بی ایس)