نیتن یاہو دور میں یہودی بستیوں کی آبادی میں زبردست اضافہ
10 جولائی 2012خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے یروشلم سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ مغربی کنارے کے علاقے میں یہودی بستیوں کی آبادی میں نیتن یاہو کے موجودہ دور حکومت میں اب تک 18 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔ خبر ایجنسی نے سرکاری ذرائع سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا ہے کہ مغربی کنارے کا یہ علاقہ وہ خطہ ہے جسے فلسطینی اپنی مستقبل کی آزاد ریاست کا دل قرار دیتے ہیں۔ لیکن گزشتہ تین برسوں سے بھی زائد عرصے سے وہاں ہزار ہا نئے یہودی آباد کار رہائش اختیار کر چکے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے پی نے اپنی جائزہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس علاقے میں یہودی بستیوں کی آبادی میں اضافے کی شرح اسرائیل کی آبادی میں اضافے کی قومی شرح کے دوگنا کے قریب بنتی ہے۔ یہ صورت حال اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان قیام امن کے پہلے ہی جمود کے شکار عمل پر اور بھی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔
اس خبر ایجنسی نے لکھا ہے کہ مشرقی وسطیٰ میں قیام امن کی کوششیں تین سال سے مسلسل ناکام ہو رہی ہیں۔ اس ناکامی کا سبب ان یہودی بستیوں کی تعمیر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں تعمیر کی جانے والی ہر یہودی بستی امن کے حصول کو اور بھی مشکل بنا رہی ہے۔ مغربی کنارے کے علاقے میں یہودیوں کی آبادی میں یہ تیز رفتار اضافہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کسی بھی علاقائی مصالحتی حل کو مزید مشکل بناتا جا رہا ہے۔ جب تک ایسا کوئی مصالحتی حل نہیں نکلے گا، تب تک اطراف کے مابین کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکتا۔
فلسطینی حکومت کے ترجمان غسان خطیب کے مطابق اس علاقے میں یہودیوں بستیوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ بینجمن نیتن یاہو کی سوچ کے عین مطابق ہے۔ انہوں نے کہا، ’یہ عمل نیتن یاہو کی اس حکمت عملی کے عین مطابق ہے کہ اسرائیل کو فلسطینی علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم رکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہی صورت حال یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ نیتن یاہو دو ریاستی حل کی بنیاد پر فلسطینیوں کی آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے بارے میں مخلص نہیں ہیں۔‘
اسرائیل کی موجودہ آبادی آٹھ ملین کے قریب ہے۔ اسرائیل شروع سے ہی مغربی کنارے کے علاقے پر اپنی گرفت مضبوط تر کرنے کا خواہش مند ہے۔ وہ یہ کوششیں تب سے کر رہا ہے جب سے اس نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں یہ علاقہ اردن سے چھینا تھا۔
اسرائیلی وزارت داخلہ کے مطابق مغربی اردن کے علاقے میں یہودیوں کی آبادی 1993ء سے اب تک تین گنا ہو چکی ہے۔ سن 2011 کے آخر تک یہ آبادی تین لاکھ 42 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ یہ تعداد 2009ء کے شروع میں وہاں یہودیوں کی آبادی کے مقابلے میں 50 ہزار سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہودی آبادکاروں میں زیادہ شرح پیدائش بھی ہے۔
اس طرح بینجمن نیتن یاہو کے موجودہ دور حکومت کے آغاز سے رواں برس کے اختتام تک مغربی کنارے میں یہودی آبادی میں 18 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس میں وہ دو لاکھ یہودی شامل نہیں ہیں جو1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد یروشلم کے مقبوضہ علاقوں میں آباد ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی کل آبادی کا تقریباً دس فیصد حصہ مقبوضہ علاقوں میں رہ رہا ہے۔
ij/ah (AP)