نوجوان فیس بک کیوں چھوڑ رہے ہیں؟
18 نومبر 2013فیس بک پر نوجوان صارفین کے رجحانات پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک اب بدل چکا ہے۔ ان کا مطلب ہے کہ نوجوان اب فیس بک کو زیادہ استعمال نہیں کر رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2013ء میں فیس بک کو ایک مسئلے کا سامنا رہا ہے، وہ یہ کہ 35 سال سے کم عمر کے بہت سے افراد نے فیس بک چھوڑ کر دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا انتخاب کر لیا ہے۔ برلن کے انسٹیٹیوٹ برائے کمیونیکیشن اینڈ سوشل میڈیا سے منسلک کارسٹن وینسلاف Karsten Wenzlaff کہتے ہیں کہ ابھی تک دیگر سماجی نیٹ ورکس کے مقابلے میں فیس بک انتہائی مضبوط تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’سماجی ویب سائٹس کا اصل مقصد دوستوں اور جاننے والوں سے رابطے میں رہنا ہے۔ لیکن اب موبائل ٹیلیفون میں بھی وَٹس ایپ یا اسی طرح کی کئی دیگر ایپلیکیشنز آ گئی ہیں، جو یہ کام کرتی ہیں ۔ صرف یہ ایپس ڈاؤن لوڈ کر لیں اور ٹیلیفون میں موجود تمام نمبر خود بخود اس ایپ میں منتقل ہو جاتے ہیں۔‘‘
کارسٹن وینسلاف تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان ویب سائٹس کو مزید ترقی دینے یا جدید بنانے کے مواقع محدود ہیں اور یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے بقول فیس بک کے بارے میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ پلیٹ فارم بہت پرانا ہو چکا ہے۔ فیس بک کے مالیاتی شعبے کے سربراہ ڈیوڈ ایبرزمَین David Ebersman نے تبدیل ہوتے ہوئے اس رجحان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسی وجہ سے فیس بک کے حصص کی قیمتوں میں عارضی طور پر کمی آئی ہے۔ وینسلاف کہتے ہیں کہ بے شک نوجوان فیس بک چھوڑ رہے ہیں لیکن کمپنی کی کوشش ہے کہ نئی ایپلیکیشنز اور نئے فیچرز متعارف کرانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے تاکہ صارفین کی تعداد بھی برقرار رکھی جا سکے۔ فیس بک معاشرے کے ہر طبقے اور ہر مزاج کے لوگوں کے لیے کوئی نہ کوئی نیٹ ورک بنانا چاہتا ہے۔ نوجوان اب تصاویر اور ویڈیو شیئرنگ کے لیے Instagram استعمال کرتے ہیں۔ چَیٹنگ کرنے کے لیے وَٹس ایپ اور اسنَیپ چَیٹ وقت کے ساتھ ساتھ معروف ہوتے جا رہے ہیں۔ کارسٹن وینسلاف کے بقول آج کل رجحان یہ ہے کہ سب کچھ ایک ہی سماجی ویب سائٹ پر موجود ہو۔ آج سے چند سال قبل جب فیس بک کو شہرت ملی، تواُس وقت فیس بک کے ایپس صرف اِسی سماجی ویب سائٹ تک محدود تھے۔ تاہم اب لوگوں کی خواہش ہے کہ انہیں مختلف کاموں کے لیے مختلف ایپس دستیاب ہوں۔
لیکن اس صورتحال کے باوجود نوجوانوں میں آخر فیس بک کے غیر مقبول ہونے کی وجہ کیا ہے؟ اس حوالے سے ماہرین کہتے ہیں کہ کم سن افراد اور نوجوانوں کے مابین فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ پسند نہیں کہ ان کے والدین یا اساتذہ بھی انہی کے نیٹ ورک پر موجود ہوں۔ کارسٹن وینسلاف کے بقول بچے اکثر ان جگہوں پر جانے سے کتراتے ہیں، جہاں ان کے والدین بھی موجود ہوں۔ اس کے علاوہ فیس بک پر نجی معاملات کی سکیورٹی بھی ایک مسئلہ رہی ہے۔ کارسٹن وینسلاف کہتے ہیں بنیادی طور پر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سماجی نیٹ ورکس کو اس سلسلے میں مزید کام کرنا ہو گا اور خود کو بہتر اور جدید بنانا ہو گا۔
سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کا تجزیہ کرنے والے ایک ادارے کے مطابق رواں سال کے دوران صرف امریکا میں فیس بک کے صارفین میں 1.2 ملین کی کمی آئی ہے۔ میونخ میں قائم ذرائع ابلاغ کے ایک ادارے کے نِیلز بروگن کہتے ہیں کہ فیس بک کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کے بقول سوشل میڈیا کا کاروبار بہت بڑھ چکا ہے اور یہ پلیٹ فارم معاشرے کا حصہ بن گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جرمن سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ سٹُوڈی فاؤ زیٹ Studi - VZ فیس بک کی وجہ سے مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی مثال یہ ہے کہ اس ویب سائٹ کو خود کو 2009ء میں اسپین، فرانس، اٹلی اور پولینڈ تک بڑھانا پڑ گیا تھا۔