نائب صدر بائیڈن کڑے وقتوں میں اوباما کے اہم ساتھی
16 جنوری 2013امریکی صدر باراک اوباما نے جب جو بائیڈن کو اپنا نائب مقرر کیا تھا تو انہوں نے بائیڈن کے لیے تحسینی کلمات ادا کیے تھے۔ تاہم اُس وقت سیاسی حلقے شک میں مبتلا تھے کہ مبہم اور غیر اہم موضوعات پر بہت زیادہ بولنے والے بائیڈن کیا اس اہم عہدے کے لیے مناسب ہیں یا نہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تاہم اب ناقدین کے بقول جو بائیڈن نے ایسے تمام تحفظات کا خاتمہ کرتے ہوئے ثابت کر دیا ہے کہ 2016ء کے صدارتی انتخابات میں وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار نامزد کیے جا سکتے ہیں۔
'فسکل کلف‘ کا معاملہ تھا یا امریکی ریاست کنیٹیکٹ کے ایک پرائمری اسکول میں فائرنگ کا بیہمانہ واقعہ، ان اور کئی مرتبہ مشکل وقتوں میں امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے نائب کو ذمہ داریاں سونپی کہ وہ معاملات کو سدھاریں۔ کہا جاتا ہے کہ بائیڈن نے ان مواقع پر انتہائی چاق و چوبند انداز میں عمل کرتے ہوئے اپنے اہداف کو مؤثر انداز میں عبور کیا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ بائیڈن مشکل وقتوں میں صدر اوباما کے ایک اہم ساتھی بنتے جا رہے ہیں۔ جو بائیڈن نے بطور نائب صدر اپنی پہلی مدت کے دوران وائٹ ہاؤس میں اپنی خدمات سر انجام دیتے ہوئے آئین کی پاسداری کو اولین ترجیح دی ہے۔
70 سالہ جو بائیڈن نے حالیہ امریکی انتخابات کے دوران ری پبلکن پارٹی کے نامزد نائب صدر پال رائن کے ساتھ اپنے مباحثے میں اُس وقت جارحانہ انداز اختیار کیا، جب صدر باراک اوباما اور ری پبلکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی کے مابین بالخصوص پہلے مباحثے کے دوران اوباما کا انداز کچھ خاص مؤثر نہیں تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے بائیڈن نے امریکی صدر اوباما کی صدارتی مہم میں ایک نئی روح پھونکی۔
تجربہ کار سفارتکار
جب جو بائیڈن 2008ء میں صدر باراک اوباما کے ساتھ وائٹ ہاؤس پہنچے تھے، تو ان کے پاس نہ صرف کیپٹل ہِل کا وسیع تر تجربہ تھا بلکہ عالمی سطح پر بھی ان خدمات کا اعتراف کیا جاتا تھا۔
بائیڈن نائب صدر کے عہدے پر فائز کیے جانے سے قبل 36 برس بطور سینیٹر اپنی خدمات سر انجام دے چکے تھے۔ وہ 1972ء میں پہلی مرتبہ سینیٹر منتخب کیے گئے تھے۔ اس وقت ان کی عمر صرف انتیس برس تھی۔
سینیٹ میں خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئر مین کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے جو بائیڈن نے عالمی سطح پر متعدد اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ وہ سابق امریکی صدر جارج بش کی خارجہ پالیسی کے کڑے نقاد تھے۔
صدر اوباما کے برعکس وہ ابتدائی طور پر عراق میں امریکی حملے کے حق میں تھے۔ تاہم بعد ازاں وہاں آمر صدام حسین کی حکومت ختم ہونے کے بعد جس طرح سے تنازعے کو سنبھالنے کی کوشش کی گئی، اس پر بائیڈن نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
ابتدائی زندگی اور آگے بڑھنے کی خواہش
جو بائیڈن پینسلوینیا کے شہر اسکرانٹن میں آئرش کتھولک گھرانے میں پروان چڑھے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف ڈیلاویئر اور سائرایکیوز یونیورسٹی کے لاء اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ اس دوران ان کو مالی مشکلات کا سامنا بھی رہا۔ بائیڈن کی عمر دس برس تھی، جب وہ اپنے والد کے ہمراہ ڈیلاویئر آن بسے تھے۔ اس وقت ان کے والد نوکری کی تلاش میں تھے۔
جو بائیڈن جب پہلی مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے تھے تو ایک کار ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں ان کی اہلیہ اور ایک نو مولود بیٹی ہلاک ہوگئے تھے۔ اس ایکسیڈنٹ میں ان کے دو نو عمر بیٹے شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔ اس دوران انہوں نے نہ صرف بطور سینیٹر اپنی خدمات سر انجام دیں بلکہ وہ اچھے والد بھی ثابت ہوئے۔
اس دور میں وہ روزانہ واشنگٹن سے ڈیلاویئر سفر کرتے تاکہ رات وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ بسر کر سکیں۔ انہوں نے 1977ء میں جِل بائیڈن سے دوسری شادی کی، جنہوں نے بعد ازاں بچوں کی پرورش میں اہم کردار کیا۔
ab/ia(AFP)