میانمار کی معیشت 2030 تک چار گنا ہونے کا امکان
31 مئی 2013میک کِنسی McKinsey گلوبل انسٹیٹیوٹ کے مطابق میانمار میں افرادی قوت بھی ہے، زمین بھی اور وسائل بھی، اس لیے اس ملک کی معیشت جو 2010ء میں محض 45 بلین امریکی ڈالرز کے برابر تھی، ترقی کر کے 2030ء تک 200 بلین امریکی ڈالرز سے تجاوز کر سکتی ہے۔
اقتصادی ترقی کی عمارت عام طور پر چار ستونوں پر تعمیر ہوتی ہے۔ توانائی اور کان کنی، زراعت، صنعت اور انفراسٹرکچر۔ منیجمنٹ کنسلٹنگ فرم میک کِنسی اینڈ کمپنی کے ریسرچ وِنگ MGI کی ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سے صنعت کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ چین اور دیگر ایشیائی ممالک میں لاگت اور اجرت میں اضافے کے سبب بہت سی کمپنیاں اپنے مینوفیکچرنگ یونٹس میانمار میں منتقل کر سکتی ہیں۔
MGI کے سینیئر فیلو فریزر تھامپسن Fraser Thompson کے مطابق، ’’میانمار ڈیجیٹل دور میں آ رہا ہے۔ اگر یہ ٹیکنالوجی کو بینکنگ، حکومت، صحت، زراعت، تعلیم اور کاروبار کے شعبوں میں مکمل طور پر اور اختراعی انداز میں استعمال کرتا ہے، تو میانمار بہت تیزی سے تمام مراحل طے کر سکتا ہے اور دنیا کی ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بن سکتا ہے۔‘‘
میانمار کی مجموعی قومی پیداوار اس وقت ایشیا کی مجموعی قومی پیداوار کے محض ایک فیصد سے بھی کم ہے اور یہ نئی دہلی اور جوہانسبرگ جیسے شہروں کی پیداوار کے برابر ہے۔ یہ جنوبی ایشیا کا غریب ترین ملک ہے۔ اس کی معیشت سابق فوجی حکومت کے باعث کئی دہائیوں تک بین الاقوامی پابندیوں کا شکار رہی۔
رپورٹ کے مطابق میانمار میں صرف چار فیصد آبادی اس قدر کماتی ہے، جو ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے کافی ہو جبکہ عالمی سطح پر یہ شرح 35 فیصد ہے۔ تاہم رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس ملک میں امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اس میں قابل زراعت زمین موجود ہے، پانی بھی اور غیر تربیت یافتہ افرادی قوت بھی۔
میانمار 1950ء کی دہائی تک علاقے کی مضبوط معیشتوں میں شمار ہوتا تھا، تاہم 1962ء میں یہاں فوجی بغاوت اور یہاں فوجی حکومت کے قیام کے بعد اس کی اقتصادی حالت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ میانمار کو، جوتب برما کہلاتا تھا، 1987ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے سب سے کم ترقی یافتہ ریاستوں میں شامل کر دیا گیا۔ کسی ریاست کو یہ درجہ اقوام متحدہ کے قائم کردہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کے پیمانے کے مطابق ناکافی سماجی اور اقتصادی کارکردگی دکھانے پر دیا جاتا ہے۔
تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی کے امکانات سے بہرہ مند ہونے کے لیے نہ صرف میانمار کو سیاسی اعتبار سے استحکام کی ضرورت ہے بلکہ یہاں مذہبی اور سماجی حوالے سے پائے جانے والی بے چینی پر بھی قابو پانا ہوگا۔ میانمار کی ریاست راکھین میں بدھ مذہب کے ماننے والوں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات کے نتیجے میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک جب کہ ایک لاکھ سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔ متاثر ہونے والوں میں زیادہ تعداد روہنگیا نسل کے مسلمانوں کی ہے۔
aba/aa (AP)