موصل کی تاریخی النوری مسجد آٹھ سال بعد دوبارہ کھول دی گئی
1 ستمبر 2025عراقی دارالحکومت بغداد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق موصل شہر کے قدیمی حصے میں یہ مسجد اپنے ایک طرف کو جھکے ہوئے مینار کے ساتھ تقریباﹰ 850 سال تک دنیا بھر میں نہ صرف مشہور تھی بلکہ موصل شہر کی خاص علامت بھی سمجھی جاتی تھی۔
2014ء میں جب دہشت گرد تنظیم 'دولت اسلامیہ‘ یا 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے رہنما ابوبکر البغدادی نے عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قبضے کے بعد اپنی قیادت میں ایک نام نہاد 'خلافت‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا، تو یہ اعلان انہوں نے اسی النوری مسجد میں نماز جمعہ کی قیادت کرتے ہوئے اپنے خطبے میں کیا تھا۔
پھر جب 2017ء میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا مختصراﹰ داعش کہلانے والی اس تنظیم کے جنگجوؤں کو عراقی دستوں کے خلاف جنگ میں شکست کا سامنا تھا، تو انہوں نے اس مسجد کی عمارت کے اندر بارودی مواد رکھ کر اسے دھماکے سے تباہ کر دیا تھا۔
یونیسکو کی مدد سے تعمیر نو
موصل کی النوری مسجد کے انہدام اور پھر داعش کی عسکری شکست کے بعد کے برسوں میں اس تاریخی مسلم عبادت گاہ کی تعمیر کے کام میں اقوام متحدہ کے ثقافتی، تعلیمی اور سائنسی ادارے یونیسکو نے بھرپور تعاون کیا۔
اس عمل میں یونیسکو کو عراق کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے قومی ادارے اور سنی مذہبی حکام کا تعاون بھی حاصل رہا۔ اس مسجد کے ایک طرف کو جھکے ہوئے مینار سمیت اس کی تعمیر نو کا عمل روایتی طرز تعمیر اور تعمیراتی سامان استعمال کرتے ہوئے مکمل کیا گیا۔ اس دوران اس مواد کو بھی دوبارہ استعمال کیا گیا، جو انہدام کے بعد اس مسجد کے ملبے سے نکال کر محفوظ کر لیا گیا تھا۔
النوری مسجد کی تعمیر نو کے لیے یونیسکو نے مجموعی طور پر 115 ملین ڈالر کی خطیر رقم جمع کی، جس کا بڑا حصہ خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات اور یورپی یونین کی طرف سے مہیا کیا گیا تھا۔
النوری مسجد ہمیشہ ایک سنگ میل رہے گی، السودانی
پیر یکم ستمبر کو النوری مسجد کے باضابطہ طور پر دوبارہ کھولے جانے کی تقریب کی صدارت عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السودانی نے کی، جنہوں نے اس موقع پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا، ''یہ مسجد ہمیشہ ایک سنگ میل رہے گی، عراقی عوام کے عزم اور بہادری کے تمام دشمنوں کو یہ یاددہانی کراتے ہوئے کہ عراقی عوام اپنے ملک کا تحفظ کر سکتے ہیں اور وہ سچائی کو مبہم کر کے پس منظر میں ڈال دینے کے خواہش مند جملہ عناصر کی طرف سے تباہ کر دی گئی ہر شے کو پوری طرح دوبارہ تعمیر کرنے کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہیں۔‘‘
عراقی وزیر اعظم نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ عراقی حکومت اور عوام اپنی ثقافت، تاریخی نوادرات اور آثار قدیمہ کے تحفظ کی انتھک کوششیں جاری رکھیں گے۔
داعش کی نام نہاد خلافت
عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قبضے کے بعد داعش کے عسکریت پسندوں نے اسلام کی اپنی ہی تشریح کے نام پر اپنے زیر اثر خطے میں جو 'خلافت‘ قائم کی تھی، اس کا رقبہ اپنے نقطہ عروج پر یورپی ملک برطانیہ کے مجموعی رقبے کے تقریباﹰ نصف کے برابر تک پہنچ گیا تھا۔
اس شدت پسند تنظیم نے، جسے دنیا کے بہت سے ممالک نے دہشت گرد قرار دے رکھا تھا، اپنے زیر اثر علاقوں میں بےمثال بربریت کا مظاہرہ کیا تھا۔ داعش کے جنگجو عام شہریوں کے سرقلم کر دیتے تھے اور خواتین کو غلام بنا لیتے تھے۔ انہوں نے ایسا خاص طور پر عراق کی قدیم ترین مذہبی برادریوں میں شمار ہونے والی ایزدی کمیونٹی کی ہزارہا خواتین کے ساتھ بھی کیا تھا، جنہیں غلام بنا کر ان کا ریپ کیا جاتا تھا۔
موصل کی مسیحی میراث
موصل میں تعمیر نو اور بحالی کے عمل کے دوران صرف تاریخی النوری مسجد ہی نئے سرے سے تعمیر نہیں کی گئی بلکہ ساتھ ہی اسی شہر میں کئی ایسے چرچ بھی دوبارہ تعمیر کیے گئے ہیں، جنہیں داعش کے عسکریت پسندوں نے منہدم کر دیا تھا۔ النوری مسجد کی طرح یہ چرچ بھی اب دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔
موصل میں کافی تعداد میں عراقی مسیحی باشندے بھی آباد تھے مگر داعش کے عروج کے دور سے پہلے کے مقابلے میں اب وہاں مقامی مسیحی آبادی قدرے کم ہو چکی ہے۔
عراقی وزیر اعظم السودانی کے بقول حکومت موصل شہر کی تاریخی مسیحی میراث کی بھی مکمل بحالی کی خواہش مند ہے۔
ادارت: عاطف بلوچ