موسمیاتی تبدیلیاں: عالمی معیشت پر سنگین اثرات
28 ستمبر 2012یہ باتیں دُنیا کے اُن بیس ممالک کے ایماء پر تیار کی گئی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہیں، جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتا ہوا زمینی درجہء حرارت نہ صرف ماحولیاتی تباہی کا باعث بنے گا بلکہ یہ ابھی سے بین الاقوامی اقتصادیات کے لیے بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ بننا شروع ہو گیا ہے۔ اس رپورٹ کے کلیدی نتائج میں یہ اندازے بھی شامل ہیں کہ زیادہ کاربن گیسوں کے اخراج کا باعث بننے والی معیشتیں اور اُن کے ساتھ جڑی موسمیاتی تبدیلیاں ہر سال پانچ ملین انسانوں کی موت کی ذمہ دار ہیں۔ ان میں سے 90 فیصد ہلاکتوں کا تعلق ہوا کی آلودگی سے ہے۔
DARA ریسرچ سینٹر کی تیار کردہ یہ رپورٹ حال ہی میں امریکی شہر نیویارک کی ایشیا سوسائٹی میں منعقدہ ایک تقریب میں جاری کی گئی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف عملی اقدامات میں ناکامی کی وجہ سے عالمی معیشت کو مجموعی عالمی پیداوار کے 1.6 فیصد کے برابر نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ نقصان سالانہ 1.2 ٹرلین ڈالر کے برابر بنتا ہے۔ مزید یہ کہ بڑھتے ہوئے درجہء حرارت اور کاربن سے جڑی آلودگی کی وجہ سے ہونے والے اضافی اخراجات سن 2030ء تک بڑھ کر مجموعی عالمی پیداوار کے 3.2 فیصد تک پہنچ جائیں گے۔
اس رپورٹ کے مطابق انسانیت کو اتنے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ رہا ہےکہ جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ساتھ ہی اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف عملی اقدامات کی صورت میں امیر اور غریب ہر دو طرح کے ملکوں کو بڑے پیمانے پر اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں غریب ملکوں کو تو مجموعی قومی پیداوار کے اعتبار سے بڑے پیمانے پر نقصان ہو گا ہی لیکن امیر ملک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ رپورٹ کے مطابق بیس سال سے بھی کم عرصے میں 1.2 ٹرلین ڈالر کے مجموعی نقصان میں سے سب سے زیادہ بوجھ چین کے حصے میں آئے گا۔ امریکی معیشت کو اپنی مجموعی قومی پیداوار کے دو فیصد کے برابر خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ بھارت میں یہ خسارہ اکٹھے پانچ فیصد تک پہنچ جائے گا۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے، جو کلائمیٹ فورم کی چیئر پرسن ہیں، کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں اُن کے گنجان آباد ملک کے لیے خاص طور پر تباہ کن ہوں گی۔ نیویارک میں اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر شیخ حسینہ نے کہا کہ درجہء حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کا مطلب ہے، زرعی پیداوار میں دَس فیصد تک کی کمی اور بنگلہ دیش کے لیے اس کا مطلب ہے، چار ملین میٹرک ٹن کم اناج، جس سے 2.5 بلین ڈالر کا نقصان ہو گا۔ یہ رقم بنگلہ دیش کی مجموعی قومی پیداوار کے دو فیصد کے برابر ہے۔ شیخ حسینہ نے کہا کہ دیگر اخراجات کو بھی ساتھ ملا لیا جائے تو ملک کو اپنی جی ڈی پی کے تین تا چار فیصد کے برابر نقصان اٹھانا پڑے گا۔
بنگلہ دیشی سربراہ حکومت نے کہا کہ سمندری پانی کی سطح ایک میٹر بلند ہونے کی صورت میں ملک کے نشیب میں واقع بیس فیصد علاقے زیر آب آ جائیں گے، جس کے باعث تقریباً تیس ملین انسان بے گھر ہو جائیں گے۔
امدادی تنظیم آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جیریمی ہَوبز نے کہا کہ یہ رپورٹ اس امر کی ایک اور یاد دہانی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید ترین نتائج بھوک اور غربت کی صورت میں برآمد ہوں گے۔
(aa/mm(afp