مودی کی ڈگری پر پردہ برقرار، دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ
26 اگست 2025دہلی ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ حق اطلاعات قانون(آر ٹی آئی) کے تحت دائر کردہ ایک درخواست پر سنایا۔ عدالت نے وہ حکم بھی کالعدم قرار دے دیا جس کے تحت آر ٹی آئی کارکن کو دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) کے 1978 کے بی اے کے ریکارڈ دیکھنے کی اجازت ملنی تھی۔ وزیر اعظم مودی کا دعویٰ ہے کہ اسی سال انہوں نے ڈی یو سے گریجویشن کیا تھا۔
سن 2016 میں، جب دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم کی تعلیمی ڈگری ''جعلی‘‘ ہے، تو اس وقت کے بی جے پی صدر اور موجودہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے وہ دستاویزات پیش کیں جنہیں انہوں نے وزیر اعظم کی بیچلر اور ماسٹر ڈگری کے سرٹیفیکیٹ قرار دیا تھا۔
اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مودی نے 1978 میں بی اے پاس کیا۔ لیکن سند میں استعمال کیا گیا انگلش کا فونٹ انیس سو بانوے کے بعد ہی پیٹنٹ ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آج تک کسی شخص نے مودی کے کلاس فیلو ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔
مودی کی ایم اے کی ڈگری بھی متنازع ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے بھارتی وزیر اعظم دنیا کے غالباﹰ واحد شخص ہیں، جن کی ڈگری پر شعبہ ''انٹایر پالیٹیکل سائنس‘‘ درج ہے۔ گجرات یونیورسٹی نے انہیں یہ ڈگری 1983 میں تفویض کی تھی۔
ڈگری کا تنازع کیا ہے؟
آر ٹی آئی کارکن نیرج کی درخواست پر سینٹرل انفارمیشن کمشنر(سی آئی سی) نے دہلی یونیورسٹی کو حکم دیا تھا کہ 1978 کے بی اے امتحان کے رجسٹر کا معائنہ کرایا جائے، جس میں تمام طلبہ کے رول نمبر، نام، والد کا نام اور نمبر درج ہوں اور متعلقہ صفحات کی مصدقہ نقول فراہم کی جائیں۔
سی آئی سی کے حکم کو دہلی یونیورسٹی نے عدالت میں چیلنج کیا اور عدالت نے جنوری 2017 میں پہلی ہی سماعت میں اس حکم پر عمل درآمد روک دیا۔
یونیورسٹی نے کہا کہ وہ 1978 میں بی اے کے امتحان دینے والے تمام طلبہ کی ذاتی معلومات ظاہر نہیں کر سکتی، کیونکہ یہ معلومات 'رازداری‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔ جب کہ نیرج کی دلیل تھی کہ اس طرح کی جانکاری عام طور پر کسی بھی یونیورسٹی کے ذریعہ شائع کی جاتی ہے اور اسے نوٹس بورڈ، ویب سائٹ اور اخبارات میں بھی شائع کیا جاتا ہے۔
دہلی ہائی کورٹ نے اس معاملے پر جاری سماعت چھ ماہ قبل ہی مکمل کرلی تھی لیکن فیصلہ پیر کو سنایا۔
عدالت نے کیا کہا؟
عدالت نے کہا کہ مودی نے اپنی تعلیمی قابلیت کے بارے میں مختلف بیانات دیے، لیکن یہ حیران کن ہے کہ اگر انہوں نے گریجویٹ ہونے کا دعویٰ کیا تو عوامی تجسس کی خاطر اس کی تصدیق کیوں کی جائے؟
عدالت نے مزید کہا کہ ہر وہ چیز جو عوامی دلچسپی کا باعث ہو وہ 'عوامی مفاد‘ کے مترادف نہیں ہے، اور 21 دسمبر 2016 کے سی آئی سی کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت نے یونیورسٹی کے مؤقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حقیقت سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی کہ جو چیز بظاہر ایک بے ضرر یا الگ تھلگ انکشاف لگے، وہ اندھا دھند مطالبات کے دروازے کھول سکتا ہے، اور کسی حقیقی عوامی مفاد کی بجائے غیر سنجیدہ تجسس یا سنسنی پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔
ایک سو پچھہترصفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت عالیہ نے بی جے پی رہنما اور سابق وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی کی دسویں اور بارہویں جماعت کے ریکارڈ فراہم کرنے کی سی آئی سی کی ہدایت کو بھی مسترد کردیا۔ عدالت نے کہا کہ مطلوبہ معلومات سے کوئی عوامی مفاد وابستہ نہیں ہے۔
عدالت نے کہا، ''کسی بھی فرد، خواہ وہ عوامی عہدے پر فائز ہوں یا نہ ہو، کی مارک شیٹس، ڈگری سرٹیفیکیٹ یا تعلیمی ریکارڈ اپنی نوعیت میں ''ذاتی معلومات‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔
نریندر مودی کی سابقہ حکومت میں اسمرتی ایرانی کو انسانی وسائل کے فروغ کی وزیر بنائے جانے پر سخت اعتراض کیا گیا تھا لیکن بی جے پی نے ان کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا سول ایوی ایشن کا وزیر بننے کے لیے ہوائی جہاز اڑانے کی اہلیت رکھنا ضروری ہے؟
ادارت: کشور مصطفیٰ