ملبوسات میں چھپے زہریلے مادے
26 نومبر 2012اس راز کا تعلق اُن زہریلے مادوں سے ہے، جو مبینہ طور پر اس ادارے کے ملبوسات کی تیاری میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ زارا کا تعلق اسپین کے Intidex گروپ سے ہے اور یہ ادارہ سالانہ 850 ملین ملبوسات تیار کرتا ہے۔
گرین پیس کے کارکنوں نے ہیمبرگ کی طرح دیگر جرمن شہروں میں بھی ایسی ہی کارروائیاں کیں۔ ان ساری کارروائیوں کا مقصد حال ہی میں جاری کیے جانے والے اُس مطالعاتی جائزے کی طرف توجہ دلانا تھا، جس میں زارا، بینیٹن، سی اینڈ اے، گَیپ اور ایچ اینڈ ایم جیسے فیشن ملبوسات تیار کرنے والے معروف اداروں کے تیار کردہ 141 مختلف ملبوسات کو اُن میں ممکنہ طور پر موجود زہریلے مادوں کے حوالے سے جانچا گیا تھا۔
ملبوسات میں کس قسم کے زہریلے مادے ہوا کرتے ہیں، اس حوالے سے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے گرین پیس کی کیمیائی امور کی ماہر کرسٹیانے ہُکس ڈورف (Christiane Huxdorff) نے بتایا:’’ہمیں ان ملبوسات میں دھلائی میں استعمال ہونے والے اور NPE کہلانے والے مادوں کی باقیات ملی ہیں۔ یہ مادے انسانوں کے ہارمونز پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ملبوسات کو نرم و ملائم بنانے کے لیے استعمال کیے جانے والے ایسے مادوں کی باقیات بھی ملی ہیں، جن کے بارے میں شک و شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ انسان کی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کر دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمیں مصنوعی رنگوں میں استعمال کیے جانے والے ایسے بھی مادوں کے اثرات ملے، جو کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔‘‘
کئی ایک ایزو (Azo) رنگ یعنی کپڑا رنگنے میں استعمال ہونے والے مصنوعی مادے زہریلے ہوتے ہیں یا کینسر کا باعث بننے والے مادے خارج کرتے ہیں۔ جرمنی میں ایسے رنگوں کا استعمال ممنوع ہے تاہم یورپ سے باہر بہت سے ملکوں میں ان رنگوں کے استعمال میں زیادہ احتیاط نہیں برتی جاتی۔ گرین پیس کی کرسٹیانے ہُکس ڈورف بتاتی ہیں کہ اسی وجہ سے بہت سے ادارے اپنے فیشن ملبوسات خاص طور پر ایشیا میں تیار کروا رہے ہیں:’’ایسا نہیں ہے کہ یہ ادارے محض اس وجہ سے ایشیا کا رُخ کرتے ہیں کہ وہاں ملبوسات کی تیاری سستی پڑتی ہے بلکہ اس لیے بھی کہ یورپ میں ان اداروں کو زیادہ سخت ماحولیاتی ضوابط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
تاہم کرسٹیانے ہُکس ڈورف کے مطابق ابھی اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ مثلاً مشکوک مادوں والی ٹی شرٹ پہننے سے ہی انسانوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ اثرات بالواسطہ ہیں یعنی جب ایسے ملبوسات کو دھویا جاتا ہے تو ان زہریلے مادوں کے اثرات زیر زمین آبی ذخائر یا دریاؤں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
خطرات کا زیادہ سامنا ایشیا میں بسنے والے اُن انسانوں کو کرنا پڑتا ہے، جو ملبوسات تیار کرنے والے اداروں سے وابستہ ہوتے ہیں اور جن کا روزانہ ان زہریلے کیمیائی مادوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ بھارت یا چین کی ٹیکسٹائل فیکٹریاں تو اپنے استعمال شُدہ پانی کو فلٹر میں سے گزارے بغیر دریاؤں میں بہا دیتی ہیں۔ ایسے دریاؤں کی مچھلیاں کھانے والے انسانوں کی صحت کو یقیناً خطرہ رہتا ہے۔
ڈوئچے ویلے کے استفسار پر اسپین کے Intidex گروپ نے یقین دلایا کہ اُن کا کوالٹی کنٹرول کا اپنا ایک الگ شعبہ ہے اور ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی ایسے مادے استعمال نہ کیے جائیں، جو انسانی صحت کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہوں۔ دریں اثناء ملبوسات میں زہریلے مادوں کی موجودگی کے خلاف گرین پیس کی مہم کے جواب میں اس گروپ کے ساتھ ساتھ کئی دیگر کمپنیوں نے بھی اپنے کوالٹی کنٹرول کو بہتر بنانے کے وعدے کیے ہیں۔
R.Gessat/aa/km