مغوی فوجیوں کا معاملہ، ایران کی پاکستان کو وارننگ
27 مارچ 2014یاد رہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سرگرم عمل عسکری گروپ جیش العدل نے چھ فروری کو کارروائی کرتے ہوئے ایران کے پانچ سرحدی اہلکاروں کو اغوا کر لیا تھا اور انہیں پاکستان کے کسی نامعلوم علاقے کی طرف لے گئے تھے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو ٹیلی فون کال کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کی رہائی کے لیے ’’سنجیدہ اور فوری کارروائی‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق صدر روحانی نے کہا ہے، ’’ہم اس معاملے میں کسی اچھی خبر کے منتظر ہیں۔‘‘ میڈیا رپورٹوں کے مطابق صدر روحانی نے عسکریت پسندوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کرنے کی بھی تجویز پیش کی ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم نے اس معاملے کو ’انتہائی اہم‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت فوجیوں کی رہائی کے لیے کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس ٹیلفونک گفتگو سے پہلے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے مغوی فوجی جمشید دانائی فر کی قسمت سے متعلق ’شیدید تشویش‘ کا اظہار کیا۔ چھ فروری کو اغوا ہونے والے پانچ سرحدی فوجیوں میں جمشید دانائی فر بھی شامل تھا اور اسی کی ہلاکت کی خبریں منظر عام پر آئی ہیں لیکن آزاد ذرائع سے اس ہلاکت کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے سرکاری ٹیلی وژن کو بتایا، ’’ ہم نے وہ تمام کوششیں کیں، جو ان کی رہائی کے لیے کر سکتے تھے۔ لیکن یہ بات مایوس کن ہے کہ پاکستانی حکومت اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں ناکام رہی ہے اور دہشت گردوں کو ان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت ہے۔‘‘
چند روز پہلے ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فاضلی نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی سرحدی محافظین کی رہائی کے لیے تہران حکومت اپنی مسلح فورسز کو پاکستان اور افغانستان کے ریاستی علاقوں میں بھیج سکتی ہے۔
گزشتہ اتوار کو جیش العدل کی ویب سائٹ پر یہ پیغام جاری کیا گیا تھا کہ جمشید دانائی فر کو ہلاک کر دیا گیا ہے اور اگر تہران حکومت نے سنی قیدیوں کو رہا نہ کیا تو دیگر اہلکاروں کو بھی ہلاک کیا جا سکتا ہے۔
ایران میں جنداللہ کے بعد منظر عام پر آنے والی سنی شدت پسند تنظیم جیش العدل کی سرگرمیوں کا مرکز ایرانی میڈیا کے مطابق، بلوچ اکثریتی علاقے سیستان بلوچستان، نک شہر، چابہار ایران شہر، سرباز، زاہدان، سراواب اور خآش رہے ہیں۔ ایرانی بلوچوں اور سنی اقلیت کے حقوق کی دعویدار یہ تنظیم ایران کے اندر متعدد پرتشدد کارروائیاں بھی کر چکی ہیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں بھی اسی عسکریت پسند گروپ کے ارکان نے پاکستانی سرحد کے قریب ایرانی علاقے میں ایک بڑا حملہ کر کے 14 سرحدی محافظین کو ہلاک اور چھ دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔ اس سے پہلے فروری 2013ء میں پاکستان اور ایران نے ایک ایسے سکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت دونوں ہمسایہ ملک دہشت گردی اور قومی سلامتی کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ منظم جرائم کی روک تھام کے لیے بھی ایک دوسرے سے تعاون کے پابند ہیں۔