مصری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی کوششیں
6 اگست 2013سفارتکاروں نے مصر کی مذہبی و سیاسی تنظیم اخوان المسلمون کی قیادت پر واضح کیا کہ وہ اس حقیقت کو اب تسلیم کر لیں کہ محمد مرسی کی بطور صدر واپسی ناممکنات میں سے ہے لیکن اخوان المسلمون کی لیڈر شپ نے یہ بات قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مصر میں سیاسی حالات میں بہتری کے لیے امریکی اور یورپی یونین کے سفارت کار اپنی کوششوں میں ہیں۔ اس مناسبت سے ان سفارت کاروں نے اخوان المسلمون کے دوسرے بڑے رہنما خیرات الشاطر سے جیل میں ملاقات بھی کی۔
مصر کی مشہور طُرہ جیل میں خیرات الشاطر سے ملاقات کرنے والوں میں امریکی نائب وزیر خارجہ ولیم برنز اور یورپی یونین کے برنارڈینو لیون شامل تھے۔ ادھر امریکی وزارت خارجہ کے مطابق مصر کے دورے پر گئے نائب وزیر خارجہ کا معزول صدر مرسی سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دریں اثنا امریکی صدر اوباما کی درخواست پر دو اہم سینیٹر لِنزی گراہم اور جان مکین قاہرہ پہنچ گئے ہیں اور یہ نئی حکومت کے نمائندوں اور اپوزیشن سے ملاقاتیں کریں گے۔ قاہرہ روانگی سے قبل لِنزی گراہم کا کہنا تھا کہ مصری فوج کو سیاسی میدان سے جلد باہر جانا ہو گا بصورتِ دیگر ڈیڑھ ارب ڈالر امداد خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
خیرات الشاطر نے امریکی اور یورپی یونین کے سفارتکاروں کے ساتھ میٹنگ کو جلد مکمل کر دیا اور سفارتکاروں کو مشورہ دیا کہ وہ محمد مرسی سے مشاورت کریں۔ یہ بات اخوان کے ترجمان جہاد الحداد نے بتائی ہے۔ الحداد کے مطابق بین الاقوامی سفارت کاروں کی خیرات الشاطر سے ملاقات کے دوران سخت لمحات بھی آئے مگر زیادہ تر یہ تعمیری اور مثبت رہی۔ اخوان کے ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ سردست کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے۔
دوسری جانب نیوز ایجنسی روئٹرز کو مصری ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فوج اور عبوری حکومت اخوان المسلمون کے مقید افراد کی رہائی کی بھی پیشکش کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ منجمد اثاثوں کی بحالی کے علاوہ تین وزارتوں کی پیشکش کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق اخوان المسلمون کے مقید اراکین کی رہائی اعتماد سازی کی جانب پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ اس کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ حکومتی پیشکش کا مثبت جواب اخوان المسلمون کی جانب سے آ سکتا ہے۔ اس مناسبت سے مصری فوج کے ترجمان احمد علی کے مطابق مصر میں سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے فوج و حکومت اور اخوان المسلمون کے درمیان تاحال کوئی ڈیل طے نہیں پائی ہے۔ مصر کے سیاسی بحران کی شدت میں کمی لانے کے لیے امریکا، یورپی یونین، خلیجی ریاستوں قطر اور متحدہ عرب امارات کی مصالحتی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔