مصر میں مزید جھڑپیں، مزید ہلاکتیں
29 مارچ 2014مصری اخبار ’الدستور‘ کے مطابق جمعے کے روز ہونے والی ان جھڑپوں کی رپورٹنگ کرنے والا اس کا ایک صحافی میادا اشرف بھی ہلاک ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہے۔ مصری وزارت داخلہ نے ایک بیان میں ان ہلاکتوں کی ذمہ داری کالعدم مصری تنظیم اخوان المسلمون کے مسلح افراد پر عائد کی ہے۔ اس بیان کے مطابق مصری انتظامیہ نے 79 مظاہرین کو گرفتار بھی کیا ہے۔
مصر صدارتی انتخابات کے انعقاد سے قبل دن بہ دن منقسم تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حالیہ مظاہرے سابق مصری صدر محمد مرسی کے حامیوں کی جانب سے سابق فوجی سربراہ عبدالفتح السیسی کے خلاف کیے گئے تھے۔ یہ السیسی ہی تھے جنہوں نے مرسی کو گزشتہ برس جولائی میں اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔ چند روز قبل السیسی اپنے عہدے سے اس لیے مستعفی ہو گئے تھے کہ وہ آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ صدارتی انتخابات میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار انہوں نے چند روز قبل کیا تھا۔
مصر میں جاری شورش کے پس منظر میں اخوان المسلمون کے سربراہ اور اس جماعت کے چھ سو کے قریب کارکنوں کے خلاف قتال اور دیگر سنگین الزامات کے حوالے سے مقدمے کی سماعت بھی شروع ہو چکی ہے۔ مبصرین کے مطابق اس صورت حال میں یہ امر مشکل ہے کہ السیسی کے مخالفین کو صدارتی انتخابات میں آزادی سے شریک ہونے اور انتخابی مہم چلانے کا موقع مل سکے۔ چوبیس مارچ کو مُرسی کے پانچ سے زائد حامیوں کو عدالت نے موت کی سزا سنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
مصر میں جاری مظاہروں میں صرف اخوان المسلمون شریک نہیں ہے۔ اسلام پسند جماعتوں اور گروہوں کے ایک اتحاد نے مرسی کے حامیوں پر چلائے جانے والے مقدموں کے خلاف مصری عوام کو سڑکوں پر آنے کی اپیل کی ہے۔ واضح رہے کہ مصر کی عبوری حکومت ملک میں مظاہروں پر سخت پابندیاں عائد کر چکی ہے۔
مصر کی فوج نے گزشتہ برس جولائی میں محمد مُرسی کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد اخوان المسلمون کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اگست میں مُرسی کی بحالی کے لیے مظاہرہ کرنے والے ان کے سینکڑوں حامیوں کو سکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا تھا۔ ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جب کہ مُرسی سمیت اعلیٰ رہنماؤں کے خلاف مقدمے قائم کر دیے گئے تھے۔