مصر ميں نئی کابينہ: ٹيکنو کريٹ اور اسلام پسند
2 اگست 2012وزير اعظم ہشام قنديل نے کابينہ تشکيل دی ہے جس ميں کيريئر بيوروکريٹس کے علاوہ کم ازکم تين اسلام پسند سياستدان شامل ہيں جن ميں سے ايک وزير تعليم ہيں۔ ہشام قنديل اب تک وزارت زراعت کے ايک غير معروف ٹيکنوکريٹ تھے۔
سابق صدر حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی پہلی مستقل مصری حکومت ميں اخوان المسلمون پارٹی کو، جس پر عرصے تک پابندی عائد رہی ہے،ايک طاقتور حيثيت حاصل ہے۔ معاشرے اور حکومت کو اسلامی اثرات سے دور رکھنے والوں نے قنديل کے وزراء کے چناؤ پر تنقيد کی ہے۔ وہ کابينہ ميں اسلام پسندوں کو شامل کرنے کے مخالف ہيں۔
اگرچہ مبارک حکومت ميں اکثر دوسرے محکموں ہی کی طرح عدليہ بھی بدعنوان اور کرپٹ سمجھی جاتی تھی ليکن مبارک حکومت کے خلاف بھی فيصلے دينےکی وجہ سے ميکی کی طرح کئی دوسرے جج عوام ميں احترام کی نظر سے ديکھے جاتے ہيں۔ جج ميکی نے کہا: ’’اس عہدے کے ذريعے ميں جو سب سے بڑا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہوں وہ معاشرتی انصاف اور عدالتی نظام کی آزادی اور غير جانبداری ہے۔‘‘
پچھلے ماہ ميکی نے کئی ٹيلی وژن ٹاک شوز ميں اسلام پسندوں کی اکثريت والی پارليمنٹ کو قانونی طور پر جائز قرار ديا۔ مصر کی سپريم کورٹ نے صدارتی انتخابات کے آخری مرحلے سے قبل ہی يہ فيصلہ ديا تھا کہ پارليمنٹ غير قانونی اور اس ليے کالعدم ہے۔ اس کے بعد اُس وقت کی حکمران فوجی کونسل نے ايک حکم جاری کيا تھا جس کے تحت منتخب شدہ پارليمنٹ کو توڑ ديا جانا تھا۔
جن وزراء کو نئی کابينہ ميں اپنے عہدوں پر برقرار رکھا گيا ہے ان ميں وزير خزانہ ممتاز السعيد اور وزير خارجہ محمد امر کامل شامل ہيں۔ يہ دونوں کيريئر سرکاری ملازمين ہيں۔ مبارک حکومت کے ايک کيريئر پوليس افسر احمد جمال الدين کو بھی وزیر داخلہ کے عہدے پر برقرار رکھا گيا ہے۔
صدر مُرسی کی اب آزادی اور انصاف پارٹی کا نام پانے والی اخوان المسلمون پارٹی کے مصطفٰی مُصاد کو وزارت تعليم کا قلمدان ديا گيا ہے۔ اخوان المسلمون ہی کے ايک اور رکن طارق وفيق کو وزارت تعميرات اور اسامہ ياسين کو نوجوانوں کی بہبود کا وزير مقرر کيا گيا ہے۔
جن چند وزيروں کے ناموں کا اعلان ابھی تک نہيں کيا گيا ہے اُن ميں وزير دفاع بھی ہيں۔ يہ عہدہ فوجی کونسل کے سربراہ فيلڈ مارشل حسين طنطاوی کے پاس ہے اور امکان ہے کہ وہ اس عہدے پر فائز رہيں گے۔
ايک سلفی عالم محمد ابراہيم نے کہا ہے کہ انہيں مذہبی امور کی وزارت کی پيشکش کی گئی ہے ليکن اسلامی اثرات کے مخالفين کی سخت تنقيد کی وجہ سے ہشام قنديل اپنے اس فيصلے پر نظرثانی ميں مصروف معلوم ہوتے ہيں۔ مصری اخبارات کے مطابق خود قنديل کے اخوان المسلمون سے بہت قريبی روابط ہيں حالانکہ قنديل اس کی ترديد کر چکے ہيں۔
sas/aa/ Reuters