مصر: اخوان کے دھرنوں کو منتشر کرنے کا عندیہ
1 اگست 2013مصر میں معزول صدر محمد مرسی کے حامی کئی ہفتوں سے دارالحکومت قاہرہ میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ مرسی کی حکومت کو بحال کیا جائے۔ خیال رہے کہ مرسی کی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد مصری فوج نے مداخلت کر کے حکومت کو معزول کر دیا تھا۔ معزول صدر اور سابق حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو نظر بند کر دیا گیا ہے۔
مصر کی عبوری کابینہ نے ٹی وی پر جاری کیے گئے ایک بیان میں مرسی کے حامیوں کے دھرنوں کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ اور دہشت گردانہ عمل قرار دیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان خطرات کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔‘‘ کابینہ نے اس کارروائی کو ممکن بنانے کی ذمہ داری وزارت داخلہ کے سپرد کر دی ہے۔
ان دھرنوں کو منتشر کرنے کی کوشش مزید خون خرابے کا سبب بن سکتی ہے۔ ہفتے کے روز سکیورٹی فورسز نے اخوان المسلمون کے حامیوں پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 80 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
دوسری جانب نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اخوان کے سپریم لیڈر محمد بدیع اور دو دیگر سینئر عہدیداروں کو لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں عدالت بھیجے جانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
مبصرین کی رائے میں اس طرح کے فیصلے مصر میں مزید کشیدگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اخوان المسلمون اور اس کی حامی جماعتوں کے اتحاد نے جمعے کے دن کے لیے ’ملین مارچ‘ کا اعلان کیا ہے۔
امریکا اور یورپی یونین نے حکومت اور مرسی کے حامیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ برداشت کا مظاہرہ کریں اور تشدد سے اجتناب برتیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی نائب ترجمان میری ہارف کا کہنا ہے کہ امریکا مصر کی عبوری حکومت پر اس بات کے لیے روز ڈالتا رہے گا کہ وہ لوگوں کو پر امن مظاہروں کے انعقاد سے نہ روکے۔
ادھر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مصر کی عبوری کابینہ کی جانب سے دھرنوں کو منتشر کرنے کے عندیے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی نئے سرے سے پامالی کا فیصلہ قرار دیا ہے۔