مشرقی یوکرائن کے کئی علاقوں میں صدارتی الیکشن خطرے میں
24 مئی 2014یہ بات آج ہفتے کے روز یوکرائن کے دارالحکومت کییف میں اعلیٰ حکام نے بتائی۔ خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق روس نواز باغیوں نے مشرقی یوکرائن کے کئی علاقوں میں ملکی الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کو صدارتی انتخابات کی انتظامی تیاریوں سے روک دیا یا ان میں واضح طور پر رکاوٹیں ڈالیں۔
یوکرائن کی وزارت داخلہ میں پبلک سکیورٹی کے شعبے کے سربراہ وولودیمیر ہرِنیاک نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ مشرقی یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے زیر اثر علاقوں میں سے ڈونیتسک اور لوہانسک کے خطوں میں 34 میں سے 17 اضلاع میں الیکشن کمیشن کے مقامی دفاتر کو غیر فعال بنا دیا گیا ہے۔
وولودیمیر ہرِنیاک نے بتایا کہ ان ضلعی دفاتر پر یا تو کییف حکومت کے مخالف مسلح روس نواز باغیوں نے قبضہ کر رکھا ہے یا پھر علیحدگی پسندوں نے رکاوٹیں کھڑی کر کے الیکشن کمیشن کے مقامی اہلکاروں کی ان کے دفاتر تک رسائی کو ناممکن بنا دیا ہے۔
کییف میں قومی وزارت داخلہ کے عوامی سلامتی کے شعبے کے سربراہ کا یہ بیان روسی خبر ایجنسی انٹرفیکس نے بھی انہی تفصیلات کے ساتھ رپورٹ کیا ہے۔
مشرقی یوکرائن میں مسلح روس نواز علیحدگی پسند گزشتہ کئی ہفتوں سے بہت سے شہروں اور علاقوں پر قابض ہیں اور انہوں نے وہاں بہت سی سرکاری عمارات اور بلدیاتی مراکز کو بھی اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ ان باغیوں نے اپنے زیر اثر علاقوں میں اس مہینے کے وسط میں ہونے والے متنازعہ عوامی ریفرنڈم کے بعد نہ صرف باقی ماندہ یوکرائن سے اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا بلکہ یہ عہد بھی کیا تھا کہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں یوکرائن کے صدارتی انتخابات کے لیے رائے دہی کو ناممکن بنا دیں گے۔
ان باغیوں کا دعویٰ ہے کہ یوکرائن میں 25 مئی کو جو صدارتی انتخابات منعقد کرانے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں، وہ ’یوکرائن ہی میں ہونے چاہییں،‘ نہ کہ ان علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں۔ خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق مشرقی یوکرائن کے ان روس نواز باغیوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یوکرائن کے صدارتی الیکشن کی ان کے نزدیک حیثیت ایسی ہی ہے، جیسے کسی ’ہمسایہ ملک میں ہونے والے الیکشن‘ کی۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کل جمعے کے روز کہا تھا کہ ماسکو حکومت یوکرائن میں صدارتی الیکشن کے جو بھی نتائج نکلے، ان کا احترام کرے گی اور کریملن اس بات پر تیار ہے کہ کییف میں انتخابات کی فاتح شخصیت کے ساتھ مل کر کام کرے۔ لیکن روسی صدر کے اس بیان کے باوجود مشرقی یوکرائن میں بہت سے روس نواز علیحدگی پسند ابھی تک اپنے اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ ’اپنے علاقوں‘ میں اس الیکشن کے انعقاد کی اجازت نہیں دیں گے۔
یوکرائن میں کل کے صدارتی الیکشن میں نئے سربراہ مملکت کے طور پر انتخاب کے لیے کُل 21 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔ عوامی جائزوں کے مطابق ارب پتی کاروباری شخصیت پیترو پوروشینکو کو اپنے حریف تمام امیدواروں پر واضح برتری تو حاصل ہے تاہم وہ بھی اس قدر عوامی تائید حاصل نہیں کر سکیں گے کہ پہلے ہی مرحلے میں قطعی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو جائیں۔ ان کی قریب ترین حریف سابق خاتون وزیر اعظم یولیا ٹیموشینکو ہیں۔
پہلے مرحلے کی رائے دہی کے غیر فیصلہ کن رہنے کی صورت میں دوسرے مرحلے کے صدارتی الیکشن کے دوران رائے دہی پندرہ جون کو ہو گی، جس میں کئی مبصرین کے مطابق کافی امکان ہے کہ پوروشینکو جیت جائیں گے۔