مشرقی یوکرائن کے علیحدگی پسندوں نے آزادی کا اعلان کر دیا
13 مئی 2014خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مشرقی یوکرائن کے روس نواز علیحدگی پسندوں کی جانب سے آزادی اور روس کے ساتھ ممکنہ الحاق سے متعلق اس اعلان کا ایک مقصد روس کے ہاتھ مضبوط کرنا اور کییف حکومت پر مزید دباؤ ڈالنا ہے۔ تاہم روس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ کریمیا کی طرز پر ان مشرقی یوکرائنی علاقوں کے حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتا۔
روس کا کہنا ہے کہ کییف حکومت کو ان علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہیں۔ ماسکو حکومت نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ یوکرائن کے تنازعے کا سیاسی طریقے سے حل ممکن ہے اور اس سلسلے میں عسکری کارروائی سود مند ثابت نہیں ہو گی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مشرقی یوکرائن کے روس نواز علیحدگی پسندوں کے اس بیان کے بعد رواں ماہ کی 25 تاریخ کو یوکرائن میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔
یورپی تنظیم برائے سلامتی و تعاون OSCE نے پیر کے روز کہا ہے کہ یوکرائن میں قیام امن کے لیے مذاکرات انتہائی ضروری ہیں۔ اس تنظیم کی صدارت رواں برس سوئٹزرلینڈ کے پاس ہے۔ اس سلسلے میں سوئس صدر دیدیئر بُرخالٹر نے بھی فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کر دیں اور عام معافی کے اعلان کے ساتھ ساتھ یوکرائن میں ڈی سینٹرلازیشن اور ملک میں روسی زبان کے مستقل کے حوالے سے بات چیت کریں۔ واضح رہے کہ مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کے بنیادی مطالبات یہی رہے ہیں۔
دریں اثناء یوکرائن کے عبوری وزیراعظم اریسنی یتسینیوک نے بھی کہا ہے کہ وہ مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں۔ ڈونیٹسک اور لوہانسک میں متنازعہ ریفرنڈم کو مسترد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں کہ آیا یہ مذاکرات کن نکات یا شرائط کے تحت ہوں گے۔ برسلز میں ایک نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا، ’ہم ایک وسیع تر قومی مباحثے کا آغاز کریں گے، جس میں مشرقی، وسط اور مغرب کے ساتھ ساتھ یوکرائن کے تمام حصوں سے بات چیت کی جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ان مذاکرات میں یہ دیکھا جائے گا کہ زیادہ سے زیادہ علاقائی خودمختاری کے لیے دستور میں کیا تبدیلیاں درکار ہیں۔