مشرقی یوکرائن کے روس نواز باغیوں میں اختلافات پھوٹ پڑے
11 جولائی 2014مشرقی یوکرائن کے علیحدگی پسندوں میں مایوسی کے عُنصر نے ظاہر ہونا شروع کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں نئے صدر پیٹرو پوروشینکو کی جارحانہ پالیسی اور سب سے بڑے حلیف روس کی بے عملی سے درجنوں روس نواز باغیوں نے ہتھیاروں سے عدم دلچسپی کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ باغی جو چند ہفتے قبل تک شیر و شکر تھے، اب انتہائی معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے الجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ تاہم ایک پریس کانفرنس میں خود ساختہ ڈونیٹسک عوامی جمہوریہ کے وزیر اعظم الیکزانڈر بورودے نے باغیوں میں پیدا شدہ اختلافات کی خبروں کی تردید کی ہے۔
باغیوں کے درمیان اختلاف کا مظہر جمعرات کا ایک واقعہ بھی ہے اور اِس میں بااثر ووسٹوک بٹالین کے لیڈر نے خود ساختہ ڈونیٹسک پیپلز ری پبلک کی فوج کے لیڈر ایگور گِرکِن (Igor Girkin) کی اتھارٹی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایگور گِرکِن روسی ہے اور اُس نے اپنے نام کے ساتھ اسٹریلکوف (Strelkov) کا اضافہ کر رکھا ہے اور وہ ڈونیٹسک علاقے کے باغیوں میں ہیرو کا درجہ رکھتا ہے۔ یوکرائنی حکام گِرکن کو روس کا سابقہ خفیہ ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور اُن کے مطابق وہ کریمیا میں بھی خاصا متحرک رہ چکا ہے۔
سلاویانسک شہر کا قبضہ چھوڑنے پر بھی ایگو گِرکِن کو مشرقی یوکرائن کے کئی اہم باغی لیڈروں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ ایگور کے مطابق اُس نے سلاویانسک شہر کا قبضہ سویلن آبادی کی جانیں بچانے کے لیے چھوڑا تھا لیکن یہ بات کئی باغی لیڈروں کو ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ ان میں سے ایک ووسٹوک بٹالین کا لیڈر الیگزانڈر خوداکووسکی ہے اور اُس نے واضح طور پر کہا کہ اگر کل ڈونیٹسک کی سویلن آبادی کو بچانے کے لیے گِرکِن اچانک اِس شہر سے پیچھے ہٹتا ہے تو وہ اور اُس کے دوسرے ساتھی یہ حکم ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
خوداکووسکی نے یہ بیان ڈونیٹسک شہر کے نواح میں واقع ماکیوکا(Makiivka) کے قصبے سے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے دیا۔ اطلاعات کے مطابق خوداکووسکی کی ووسٹوک بٹالین ایگور گِرکن سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ماکیوکا کے قصبے کو سنبھالے ہوئے ہے۔ باغیوں کے بعض ساتھیوں نے اپنے درمیان اختلافات اور صورت حال سے بیزاری کی وجہ روس کی بے عملی کو قرار دیا ہے۔
ڈونیٹسک یونیورسٹی میں مقیم کئی درجن باغیوں نے بھی اپنے ہتھیار پھینک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی اہم وجہ اُن کا مسلسل یونیورسٹی ہوسٹل کے کمروں میں مقید رہنا خیال کیا گیا ہے۔ ان کے ایک ساتھی اولیگ کا کہنا تھا کہ روس نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے اور اب لڑائی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اولیگ نے اپنا اصلی نام بتانے سے گریز کیا۔ ایگور گِرکِن نے بھی مقامی آبادی کو باغیوں کی صفوں میں شامل کرنے میں حائل مشکلات کا اعتراف کیا ہے۔ گِرکن کا اعتراف باغیوں کے ٹیلی وژن چینل پر نشر کیا گیا ہے۔
دوسری جانب کییف حکومت مسلسل یہ کہہ رہی ہے کہ روس باغیوں کو مسلح کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے اور ماسکو حکومت اِس کی تردید کرتی چلی آ رہی ہے۔