مشرف کو قتل کرنے کی کوشش کريں گے، پاکستانی طالبان
23 مارچ 2013خبر رساں ادارے روئٹرز کی پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے موصولہ ايک رپورٹ کے مطابق پاکستانی طالبان نے آج جاری کردہ اپنی ايک ويڈيو ميں سابق صدر کو قتل کرنے کے ليے خود کش حملے اور اسنائپرز يعنی دور سے نشانہ لے کر فائرنگ کرنے والے ماہر افراد استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔
روئٹرز کو ملنے والی طالبان کی ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ مشرف کو ’جہنم واصل کرنے کے لیے مجاہدین نے خصوصی اسکواڈ ترتیب دیے ہیں جن میں خودکش حملہ آوروں سمیت ماہر نشانچی اور خصوصی لڑاکا یونٹ شامل ہیں‘۔ ويڈيو ميں يہ بات عدنان رشيد نامی ايک عسکريت پسند کہہ رہا ہے، جو مشرف پر پہلے بھی حملہ کر چکا ہے۔
سابق صدر کی وطن واپسی اور طالبان کی اس دھمکی کے موضوع پر ڈوئچے ويلے سے خصوصی بات چيت کرتے ہوئے پاکستان سے تعلق رکھنے والے دفاعی تجزيہ نگار طلعت مسعود کا کہنا ہے، ’’تحريک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی جيسی تنظيموں سے پاکستان کے تمام لبرل رہنماؤں کو خطرات لاحق ہيں اور اس تناظر ميں تو مشرف کو کافی حفاظتی تدابير اپنانا ہوں گی۔ ليکن ديکھنا يہ ہے کہ کيا يہ تدابير کافی ہوں گی۔‘‘ طلعت مسعود کے بقول رياست ماضی ميں بھی سياسی رہنماؤں کو حفاظت فراہم کرنے کے معاملے ميں ناکام ہو چکی ہے حتیٰ کہ جب مشرف خود صدر تھے تو ان پر تين مرتبہ حملے کيے گئے تھے۔
ايک اور سوال کے جواب ميں طلعت مسعود نے کہا کہ اگرچہ سابق آرمی چيف کو فوج کی طرف سے کچھ حد تک سکيورٹی فراہم کی جا سکتی ہے تاہم دراصل يہ ذمہ داری سويلين حکومت کی ہے۔
سابق صدر پرويز مشرف کو اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ انہيں سابق وزير اعظم بينظير بھٹو کو سن 2007 ميں ان کی وطن واپسی کے موقع پر نا مناسب سکيورٹی فراہم کرنے کے الزام پر زير حراست ليا جا سکتا ہے۔ اس بارے ميں بات کرتے ہوئے طلعت مسعود نے کہا، ’’ايسا ضرور ممکن ہے کہ انہيں وطن واپسی پر حراست ميں لے ليا جائے اور ان پر مقدمہ چلايا جائے۔ ابھی تو انہوں نے ضمانت قبل از گرفتاری لی رکھی ہے، جو دس پندرہ ايام کے ليے انہيں ان کی سيائی سرگرمياں چلانے کا وقت فراہم کرے گی۔ ديکھنا يہ ہے کہ عدليہ ان کے خلاف مقدمات کے معاملے سے کس طرح نمٹتی ہے۔‘‘
سابق صدر مشرف قريب چار سال کی خودساختہ جلاوطنی کے بعد کل 24 مارچ کو دبئی سے پاکستان واپس پہنچ رہے ہیں۔ انہوں نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی ہے اور چار مختلف حلقوں سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان ميں گيارہ مئی کو عام انتخابات ہو رہے ہيں۔
ڈوئچے ويلے سے بات کرتے ہوئے پاکستانی تجريہ کار کا مزيد کہنا تھا کہ مشرف کا پاکستانی سياست ميں کچھ زيادہ کردار نہيں ہے اور کئی لوگ موجودہ حالات کو انہی کی پاليسيوں کا پھل قرار ديتے ہيں تاہم وہ پاکستان آ کر اپنی سياسی سرگرمياں جاری رکھنے کا حق ضرور رکھتے ہيں۔
پرويز مشرف نے سن 1999 ميں سابق وزير اعظم نواز شريف کا تختہ الٹتے ہوئے اقتدار سنبھالا تھا۔ انہوں نے 2008ء ميں بے انتہا سياسی دباؤ کے پيش نظر مستعفی ہونے کا فيصلہ کيا، جس کے بعد وہ وطن چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اپنے دور اقتدار ميں مشرف نے امريکا ميں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان کے خلاف امريکا کی عسکری کارروائی کا ساتھ ديا اور پھر بعد ميں پاکستان ميں بھی طالبان عسکريت پسندوں کے خلاف آپريشن کا آغاز کيا۔ يہ وجوہات طالبان ميں ان کے خلاف پائی جانے والی برہمی کی وجوہات ہيں۔
رپورٹ: عاصم سلیم / Reuters
ادارت: افسر اعوان