"دیہاڑی لگ گئی تو ٹھیک، اگر روزی نہ لگی تو پھر روزہ" یہ جملہ پاکستانی مزدور طبقہ کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اول تو مزدوروں کو ان کی محنت کی جائز اُجرت نہیں دی جاتی اور اگر دی بھی جائے تو اتنی کم کہ مزدوروں کو دوبارہ پسینہ آجاتا ہے۔
ستم ظریفی کہ آج بھی مزدور اپنے حقوق سے محروم ہے، کیونکہ حقوق کے لیے بنائے گئے قوانین میں اس قدر ابہام ہے کہ مزدوروں کو حق لینے کے لیے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔ افسوسناک پہلو کہ پاکستان میں مزدوروں کی جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے کوئی محتاط اعدادو شمار نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کی پہلی لیبر پالیسی 1972ء میں تشکیل دی گئی مگر حیف کہ مزدور طبقہ تاحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ پاکستان میں 100سے 90 فیصد مزدور مضرِ صحت ماحول میں کام کرتے ہیں انہیں جبری مشقت سمیت جسمانی و نفسیاتی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اکثر فیکٹریوں کی عمارتیں پرانی و بوسیدہ ہو چکی ہیں۔ کچھ مزدور مالکان کی سیفٹی قوانین سے متعلق عاقبت نا اندیشی سے زخمی ہو جاتے ہیں اور یہ زخم انہیں مستقبل اپاہج بنا دیتا ہے۔ پھر ان مزدوروں کے سوشل سیکورٹی کارڈز نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ورثاء ڈیتھ گرانٹ اور معذوری پینشن سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔
مزید برآں فیکٹریوں کے اندر صفائی ستھرائی کا کوئی انصرام نہیں۔ صاف پانی تو دور کی بات، اکثر فیکٹریوں میں تو پانی تک دستیاب نہیں ہوتا۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کے مطابق، پانی میں آلودگی زیادہ تر زہریلی دھات، گدلا پن، حل شدہ مضر عناصر، نائٹریٹ اور فلورائیڈ کی موجودگی کی وجہ سے ہے جس سے گردے، کینسر اور دل کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ مزدور بغیر فلٹر پانی پینے پر مجبور ہیں۔
پاور لوم فیکٹریوں میں شور اس قدر ہوتا ہے کہ ورکرز کی اکثریت بہرے پن میں مبتلا ہو جاتی ہے، کاٹن فیکٹری میں مسلسل روئی اُڑنے کی وجہ سے پھیپھڑوں اور ٹی بی کی بیماریاں عام ہیں۔کوئلہ کی کان میں کام کرنے والے مزدور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سریا بنانے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والے چند سال بعد انتڑیوں کے مہلک مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد وہ کسی اور مزدوری کے قابل نہیں رہتے۔
افسوس پاکستان میں مزدور یونین سازی کے عمل میں فیکٹری مالکان کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فیکٹری مالکان خسارہ تو برداشت کر لیتے ہیں مگر ٹریڈ یونین ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ مزدور جب حقوق کی بات کرتے ہیں تو ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں انہیں نوکری سے فارغ کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے اس کے علاوہ اجرت کم دینا، پولیس کے ساتھ ساز باز کر کے جھوٹے مقدمات میں الجھا دینا، ڈرانا، دھمکانا جیسے حربے عام ہیں۔
سمال انڈسٹریز میں بیمار ہونا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ رخصت لینے پر ان سے ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے کہ گویا مزدور پلاسٹ کے بنے ہوں یا روبورٹ کے جو کبھی بیمار نہیں ہو سکتے۔ مزدور حاملہ خواتین کو استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد بعض انڈسٹریز میں ڈے کیئر سینٹر ہی موجود نہیں۔ ماؤں کی نگہداشت کے بغیر شیرخوار بچوں کی صحت اور چھوٹے بچوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پاکستان میں کئی جگہوں میں آٹھ گھنٹوں کی بجائے بارہ بلکہ سولہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور اگر مزدور زیادہ وقت کام کرنے سے انکار کرتا ہے تو اسے ملازمت سے فارغ کر دینے کا عندیہ دیا جاتا ہے۔ لہٰذا مزدور بہ حالتِ مجبوری اپنی طاقت سے زیادہ محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اخلاقاً کام کی نوعیت متعین ہونی چاہیے نہ کہ مزدور سے اس کی وسعت اور طاقت سے زیادہ کام لے کر اس کو گرانبار اور بوجھل کیا جائے۔
نیز بوڑھے، معمر مزدور حضرات سے خاص رعایت برتی جائے۔ لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ، اندورن سندھ اور پشاور کے کارخانوں اور مارکیٹس میں ستر سال تک کے ضعیف اپنے اہل وعیال کی کفالت کی خاطر کمزور کندھوں پر بوجھ لادے ہوئے ہوتے ہیں۔
ہاتھوں میں چھینی، ہتھوڑی، ڈرل مشین، پینٹ برش پکڑے، بے بسی کی تصویر بنے، شاہراہوں، چوراہوں پر بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ مزدوروں کے علاوہ، چنے مکئی فروخت کرنے والا، سکول کے باہر چھابڑی والا، موچی، پارکس کے باہر دال، قہوہ، پاپڑ بیچنے والے، مداری یہ سب کس فہرست میں آتے ہیں۔ ان کے حقوق کا تحفظ کون کرے گا۔
صنعتی تعلقات کا آرڈیننس آجر یعنی کمپنی مالکان کو پابند کرتا ہے کہ وہ ہر عارضی ملازم کو 90 دن مکمل ہونے پر مستقل کرے لیکن پاکستان کے صنعتی اداروں بشمول پرائیویٹ، ملٹی نیشنل، سرکاری و نیم سرکاری غرض یہ کہ ہر جگہ اس قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ بد قسمتی سے ماضی میں پاکستان کے صنعتی اداروں کی اکثر ٹریڈ یو یونینز کا وہ مثبت کردار نہیں رہا جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی۔ اب ایسا ٹھیکیداری سسٹم رائج کیا جا رہا ہے جس میں عارضی ملازمین کو ادارہ یا فیکٹری اپنا ملازم تصور نہیں کرتے اور نہ کمپنی مستقل کرنے کی پابند ہے۔
بہر کیف حکومت کو چاہیے کہ مجاز اتھارٹی بنائے جو فیکٹریوں میں حادثات کی روک تھام کے لیے ہیلتھ اینڈ سیفٹی قوانین بنا کر ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ فیکٹریوں کا سروے کیا جائے اور معاوضہ کم دینے والوں کے خلاف چالان کیے جائیں اور وہاں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو مستقل کیا جائے تاکہ مزدوروں کو ان کے حقوق کی ضمانت مل سکے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔