محمود عباس آج باراک اوباما سے ملیں گے
17 مارچ 2014خبر رساں ادارےروئٹرز نے واشنگٹن حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اتوار کے روز محمودعباس پر زور دیا کہ وہ فلسطینی اسرائیلی تنازعے کے خاتمے کے لیے ’سخت فیصلے‘ کریں۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے روئٹرز کو بتایا، ’’وزیر خارجہ جان کیری نے گزشتہ چند ماہ کے دوران صدر محمود عباس کی مستقل مزاجی اور تعاون پر ان کا شکریہ ادا کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ آئندہ کچھ ہفتوں کے دوران مشکل فیصلےکریں، جو مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے ضروری بھی ہیں۔‘‘
اس اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ اتوار کے دن جان کیری اور محمود عباس کے مابین ہونے والی ملاقات انتہائی تعمیری اور خوشگوار رہی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ نے فلسطینی صدر کے ساتھ ملاقات میں دہرایا کہ مذاکرات انتہائی اہم موڑ پر ہیں اور پائیدار امن کے لیے اس تنازعے کے فریقین کو ثابت قدم رہنا ہوگا۔ جان کیری کے بقول اس مسئلےکی تاریخ عشروں پرانی ہے، اس لیے باہمی اختلافات کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ایمانداری اور نیک نیتی سے آگے بڑھانا ہوگا۔
واشنگٹن حکومت کی ثالثی میں گزشتہ برس انتیس جولائی کو بحال ہونے والے مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کے موقع پر جان کیری نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ آئندہ نو ماہ کے دوران یعنی انتیس اپریل 2014ء تک اسرائیل اور فلسطینی رہنماؤں کے مابین امن ڈیل طے پا جائے گی۔ اگرچہ اب اس مدت کے ختم ہونے کا وقت قریب آ چکا ہے تاہم تنازعے کے فریقین ابھی تک کسی حتمی سمجھوتے تک نہیں پہنچ پائے۔
اس تناظر میں باراک اوباما اور محمود عباس کے مابین ہونے والی آج کی ملاقات کو انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ تقریباﹰ دو ہفتے قبل امریکی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کےساتھ ملاقات میں اس معاملے پر سیر حاصل بات چیت کی تھی۔ اگرچہ اوباما کے ساتھ ملاقات کے دوران نیتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ ’تاریخی امن‘ قائم کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم عوامی سطح پر انہوں نے اس حوالے سے رعایت دینے کی اب تک کوئی بات نہیں کی۔
اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے واشنگٹن حکومت نے اب کہا ہے کہ انتیس اپریل کی ڈیڈ لائن تک کم ازکم مزید مذاکرات کے ایک فریم ورک کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی، یہاں تک کہ جان کیری نے 26 فروری کو یہ بھی کہا تھا کہ مکمل امن ڈیل کے لیے شاید مزید نو ماہ درکار ہوں گے۔
امریکی کوششوں کے باوجود مبصرین نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ گزشتہ چھ دہائیوں سے جاری یہ تنازعہ شاید جلد حل نہیں ہوگا۔ روئٹرز نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی رہنما اپنے اختلافات کو کم کرنے میں اب تک ناکام نظر آ رہے ہیں۔ ان بنیادی اختلافات میں سرحدوں کے تعین، سلامتی کی صورتحال اور فلسطینی مہاجرین کے مستقبل کے علاوہ یروشلم کی تقسیم جیسے معاملات سرفہرست ہیں۔