محمد آصف کا ’اعتراف جرم‘ اور ایک وعدہ
14 اگست 2013اس اسکینڈل میں ملوث دو سابق کھلاڑی محمد عامر اور سلمان بٹ پہلے ہی اپنی غلطی تسلیم کر چکے ہیں۔ محمد آصف، سلمان بٹ اور محمد عامر کو 2010ء میں دورہء انگلینڈ کے دوران لارڈز ٹیسٹ کے دوران ناجائز رقوم کے عوض دانستہ طور پر نو بولز کرانے کی پاداش میں نہ صرف لندن کی ایک عدالت نے سزائیں سنائی تھیں بلکہ بین الاقوامی کرکٹ بورڈ نے بھی ان پر کسی بھی سطح پر کرکٹ کھیلنے کی پابندی عائد کر دی تھی۔
بدھ کے دن محمد آصف نے کراچی پریس کلب میں اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا، ’’میں آئی سی سی کی طرف سے 2010ء میں سنائی جانے والی پابندی کی سزا کو قبول کرتا ہوں۔‘‘ تیس سالہ محمد آصف پر سات سال کی پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ محمد آصف سمیت دیگر دونوں کھلاڑیوں کا دوبارہ بین الاقوامی کرکٹ میں قدم رکھنے کے لیے اعتراف جرم کرنا، معافی مانگنا اور بحالی پروگرام میں شریک ہونا ضروری ہے۔
محمد آصف نے مزید کہا، ’’میں اپنے اُن اعمال پر معذرت خواہ ہوں، جو میرے پیارے ملک کے لیے بدنامی اور پاکستان اور دنیا بھر میں میرے لاکھوں مداحوں کے لیے مایوسی کا سبب بنے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جب وہ ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو انہیں بہت زیادہ افسوس ہوتا ہے۔
ٹیسٹ کرکٹ میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے آصف کا کہنا تھا، ’’میں اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کرنے والے تمام کھلاڑیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہر قسم کی بدعنوانی سے دور رہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا، ’’میں ایسے کھلاڑیوں کی مدد کے لیے تیار ہوں، جو ایسی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
محمد آصف کے بقول وہ آئی سی سی، اس کے انسداد بدعنوانی کے یونٹ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کرتے ہوئے کھیلوں میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے جنگ کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے بحالی کے پروگرام میں شرکت کے لیے تیار ہیں۔
23 ٹیسٹ میچوں میں 106 وکٹیں حاصل کرنے والے محمد آصف نے کہا، ’’میں اپنی غلطیوں کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں۔ اب اپنے ملک کے یوم آزادی کے دن میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب مجھ پر عائد پابندی ختم ہو جائے گی تو میں اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔‘‘
انہوں نے آئی سی سی سے یہ درخواست بھی کی کہ انہیں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کی اجازت دی جائے تاکہ جب ان پر عائد پابندی ختم ہو تو وہ اپنے ملک کی نمائندگی کے لیے جسمانی طور پر فٹ ہوں۔