متنازعہ سری لنکن جنرل کی رکنيت پر شديد احتجاج، اقوام متحدہ
23 فروری 2012خبر رساں ادارے اے ايف پی کی ايک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی ايک امن کارروائيوں سے متعلق کميٹی کے بائيس فروری کو ہونے والے اجلاس ميں سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ميجر جنرل شيوندرا سلوا کو تمام معاملات سے دور رکھا گيا۔ اس سلسلے ميں جنرل سلوا کميٹی کے پہلے اجلاس کا حصہ بن چکے ہيں ليکن کسی بھی سفارت کار نے ان سے بات چيت نہيں کی اور نہ ہی انہيں کميٹی کے کسی بھی کام ميں شامل کيا گيا۔ اس معاملے پر کينيڈا سے تعلق رکھنے والی کميٹی کی سربراہ لوئيز فريشيٹ نے اپنے ايک بيان ميں کہا، ’اس مسئلے پر غور کرنے اور ديگر سفيروں کے ساتھ مشاورت کے بعد ميجر جنرل شيوندرا سلوا کو مطلع کر ديا گيا ہے کہ کميٹی ميں ان کی رکنيت اور موجودگی نامناسب ہے‘۔ فريشيٹ جو کہ ماضی میں اقوام متحدہ کے ڈپٹی سيکرٹری جنرل کے طور پر فرائض بھی انجام دے چکی ہيں، نے اس حوالے سے جنرل سلوا کو بتا ديا ہے کے ان کو کميٹی کے معاملات کا حصہ نہ بنانے کا فيصلہ کیا جا چکا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق اداروں نے اقوام متحدہ کی اس دس رکنی کميٹی کے ارکان کے فيصلے کو مثبت قرار ديا ہے۔ ہيومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کردہ ايک بيان ميں کہا گيا ہے کہ سری لنکا کی حکومت کو جنرل سلوا کی جانب سے مبینہ طور پر جنگی جرائم کے ارتکاب اور انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کو نظر انداز کرنے کا خميازہ بھگتنا پڑے گا۔
جنرل سلوا کی اقوام متحدہ کی امن کارروائيوں سے متعلق کميٹی ميں نامزدگی اور رکنيت پر ابتدا ميں اقوام متحدہ کی جانب سے کوئی رد عمل ديکھنے ميں نہيں آيا تھا اور ادارے نے اسے ايشيا پيسيفک ممالک کا فيصلہ قرار ديتے ہوئے تسليم کر ليا تھا۔ البتہ جنرل سلوا کی اقوام متحدہ کے ليے بطور ڈپٹی سفير نامزدگی پر انسانی حقوق کے نگران اداروں کی جانب سے سخت اعتراضات سامنے آ ئے تھے۔
اگرچہ سری لنکا ميں ميجر جنرل شيوندرا سلوا پر الزامات عائد نہيں کيے گئے ہيں، تاہم اقوام متحدہ کے ماہرين اور انسانی حقوق کے نگران اداروں کا ماننا ہے کہ جنرل سلوا سری لنکا ميں 2009ء ميں تامل باغيوں کے خلاف آپريشن ميں شامل تھے۔ اس ملٹری آپريشن ميں ہزاروں اموات ريکارڈ کی گئيں تھيں۔
رپورٹ: عاصم سليم
ادارت: عاطف توقير