متحدہ عرب امارات میں درجنوں اسلام پسندوں کے خلاف مقدمہ
28 جنوری 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی نے متحدہ عرب امارات کے اٹارنی جنرل سلیم کوبیش کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان افراد پر ایک ایسی تنظیم بنانے اور چلانے کا الزام ہے، جو ریاست کے سیاسی نظام کی بنیادی اقدار کے مخالف ہے اور جس نے ریاست پر کنٹرول کرنے کی سازش کی ہے۔ ان مشتبہ افراد کی گرفتاری کا اعلان جولائی میں کیا گیا تھا۔
متحدہ عرب امارات کی سرکاری نیوز ایجنسی WAM نے اٹارنی جنرل سلیم کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملزمان پر ایک ’خفیہ تنظیم‘ بنانے کا الزام ہے، جس کے بیرون ملک انفرادی اور تنظیمی سطح پر رابطے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے اخوان المسلمون سے بھی رابطے تھے۔
اٹارنی جنرل سلیم کے بقول ان مشتبہ افراد نے اپنے تنظیمی ڈھانچے کو چلانے کے لیے ریاست میں جائیداد کی مختلف کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی یا ایسی ہی اپنی کمپنیاں بنا رکھی تھیں۔ انہوں نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ ان افراد کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ کارروائی کب شروع کی جائے گی۔
’عرب اسپرنگ‘ اور متحدہ عرب امارات
رواں ماہ جنوری میں ہی WAM نے حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ استغاثہ نے ایک ایسی خاتون سے پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کیا ہے، جو مبینہ طور پر اسی گروپ سے تعلق رکھتی تھی۔ عرب اسپرنگ کے دوران اگرچہ دو خلیجی ریاستوں بحرین اور اومان میں وسیع تر اصلاحات کے لیے لوگ سڑکوں پر نکلے تھے تاہم متحدہ عرب امارات میں کوئی احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ تاہم حکام نے منحرفین اور ایسے افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا جو جمہوری اصلاحات کے حق میں ہیں۔
دبئی پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار داہی خلفان نے تیونس اور مصر میں اقتدار میں آنے والی اسلام پسند اخوان المسلمون پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ خلیجی ریاستوں میں بادشاہی نطام کے خلاف سازش کی مرتکب ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ گرفتار شدہ ملزمان کا تعلق اسی اسلام پسند گروہ سے ہے۔
رواں ماہ ہی متحدہ عرب امارات کے مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ وہاں سکونت پذیر ایسے گیارہ مصریوں کو گرفتار کیا گیا تھا، جن کا تعلق اخوان المسلمون سے تھا۔ اس خبر کے بعد متحدہ عرب امارات اور مصر کے پہلے سے تناؤ کے شکار تعلقات مزید ابتر ہونے لگے تھے۔ مصر میں اسلام پسند صدر محمد مرسی کے اقتدار میں آنے کے بعد متحدہ عرب امارات اور مصر کے تعلقات میں سرد مہری دیکھنے میں آئی تھی۔ خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات ، جہاں سیاسی جماعتوں کی ممبر شپ پر پابندی ہے، نے مصری باشندوں کی رہائی کے لیے قاہرہ حکومت کی درخواستوں کو رد کردیا تھا۔
ab/ng (AFP)