ماہواری کی ’شرم‘، لاکھوں بھارتی لڑکیاں اسکول جانے سے قاصر
9 اکتوبر 2022بھارت میں خواتین کے مخصوص ایام یعنی ماہواری کے دنوں سے متعلق حفظان صحت کی تربیت میں کمی کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں اسکول کو مکمل طور خیرباد کہنے یا کم ازکم اپنے مخصوص ایام کے دوران سکول ترک کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسا بھارت کے دیہی علاقوں کے بڑے حصوں میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں اسکول جانے والی لڑکیوں میں ماہواری سے متعلق حفظان صحت کے بارے میں آگاہی اور تربیت کی کمی پائی جاتی ہے۔
سیلاب کے دنوں میں ماہواری کے دن
لاکھوں مناسب تعلیم سے محروم
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال' یونیسیف‘ کی ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں 71 فیصد نوعمر لڑکیاں اس وقت تک حیض سے لاعلم رہتی ہیں جب تک کہ انہیں پہلی ماہواری نہیں آ جاتی اور جب ان لڑکیوں کو اس بارے میں معلوم ہوتا ہے تو ان میں بہت سی اسکول جانا چھوڑ دیتی ہیں۔ایک اور غیر سرکاری تنظیم ''دسرا‘‘ کی 2019 ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حیض کے دوران حفظان صحت کی مناسب سہولیات کی کمی کی وجہ سے سالانہ 23 ملین لڑکیاں اسکول جانا چھوڑ دیتی ہیں۔ ان مسائل میں سینٹری پیڈز کی عدم دستیابی اور حیض کے بارے میں معلومات کا نہ ہونا شامل ہیں۔
کیا خواتین کو حیض کے دوران چھٹیاں ملنی چاہیئں؟
اس شعبے میں کام کرنے والے صحت کے ماہرین اور این جی اوز بھی بنیادی سہولیات کی کمی کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جیسا کہ بیت الخلا اور صاف پانی تک رسائی کا نہ ہونا۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی بدنامی، ہراسانی اور ماہواری سے جڑے معاملات پر بات چیت نہ کرنا شامل ہے۔ عملی طور پر نوجوان لڑکیوں کو ان کی پہلی ماہواری سے پہلے کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ بچوں کی صحت سے متعلق کام کرنے والی ایک پبلک ہیلتھ پروفیشنل وندنا پرساد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جب انہیں پہلی بار حیض آیا تو وہ اس بارے میں یہ سوچ کر کتنی فکر مند تھیں کہ شاید وہ پہلی بار کسی جان لیوا بیماری کا شکار ہوگئی ہیں۔ اس بارے میں انہیں عام طور پر اپنی ساتھیوں کے ذریعے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ اکثر نامکمل اور غلط ہوتی ہیں۔‘‘
ماہواری سے متعلق مصنوعات پہنچ سے باہر
ذہنی اور نفسیاتی تناؤ کے ساتھ ساتھ سینیٹری پیڈ پکڑنے، ان کو ٹھکانے لگانے اور خود کو خشک اور صاف رکھنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ یہ خاص طور پر اسکول جانے والی نوعمر لڑکیوں کو متاثر کرتا ہے۔ وندنا پرساد نے کہا، ''یہ سب مجموعی طور پر ان غریب لڑکیوں اور عورتوں کے لیے مسائل کا ایک ماہانہ اضافی بوجھ ہے، جو ان کی پسماندگی میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں پہلے سے ہی درپیش صحت، غذائیت، تعلیم اور سماجی حیثیت کی خراب صورتحال میں اضافی نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘
اسکاٹ لینڈ حیض مصنوعات مفت دینے والا دنیا کا پہلا ملک
ماہواری سے جڑا خاموشی کا یہ کلچر خاندانوں اور برادریوں میں شرمندگی پیدا کرتا ہے۔ خواتین کے مسائل پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم جاگوری کی ڈائریکٹر جیا ویلنکر کا ماننا ہے کہ ثقافتی اور مادی دونوں وجوہات کی بنا پر نوعمر لڑکیوں کا حیض کے دوران اسکول نہ جانا بہت عام سی بات ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو ان سماجی خدشات کے بارے میں بتایا جو بیٹیوں کے حیض آنے کے بعد ُان کے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں، ''بہت سی لڑکیوں کے لیے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، ماہواری کا آغاز ان کی اسکول کی تعلیم کا اختتام بن جاتا ہے کیونکہ والدین کے ذہن میں دوہرا خوف ہوتا ہے۔انہیں ڈر ہوتا ہے کہ ان کی بچی جنسی تشددکا شکار ہو سکتی ہے۔ انہیں یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ لڑکیاں جنسی طور پر سرگرم ہونے کے بعد تعلقات قائم کر سکتی ہیں اور انہیں اصل خوف یہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں لڑکیاں 'نچلی ذات‘ کے لڑکوں سے پیار نہ کر بیٹھیں۔‘‘
ماہواری کے بارے میں خاموشی
کچھ ماہرین جنہوں نے اس مسئلے کا قریب سے مطالعہ کیا ہے ان کا خیال ہے کہ عمر کے لحاظ سے مناسب ، معیاری جنسی تعلیم ضروری حل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنسی تعلیم نہ صرف حیض جیسے جسمانی عمل کے بارے میں سائنسی معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ مباشرت، صنفی شناخت، جنسی رجحان اور سب سے اہم بات، رضامندی کی اہمیت اور مانع حمل ادویات سمیت ذمہ داریوں سے لے کر متعدد امور کا بھی احاطہ کرتی ہے۔
پسماندہ پاکستانی علاقوں میں ماہواری سے آگہی بڑھتی ہوئی
مئی میں شائع ہونے والی تازہ ترین نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت میں پندرہ سے چوبیس سال تک کی عمر کی تقریباﹰ نصف خواتین اب بھی ماہواری کے تحفظ کے لیے کپڑے کا استعمال کرتی ہیں، جس کے بارے میں ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ایک ہی کپڑے کو دوبارہ استعمال کیا جائے تو اس سے متعدد اقسام کے انفیکشن ہوسکتے ہیں۔ وہ اس کی وجہ آگاہی میں کمی اور حیض کے مسائل سے متعلق بات چیت نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں۔
بات چیت جاری رہنی چاہیے
فلم پروڈیوسر گنیت مونگا نے 2019 ء میں اپنی دستاویزی فلم ''پیریڈ، سزا کا اختتام‘‘ کے لیے آسکر جیتا تھا۔ مونگا اسٹیک ہولڈرز پر زور دیتی ہیں کہ وہ اس موضوع کے بارے میں بات چیت جاری رکھیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''تبدیلی ایک سماجی، سیاسی اور معاشی عمل ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اب زیادہ سے زیادہ لوگ لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور میں جانتی ہوں کہ ابھی ایک لمبا سفر طے کرنا ہے۔‘‘
خاکی لفافوں میں رکھی ہوئی زنانہ تکلیفیں
ماہواری کے دوران ساتھیوں خاص طور پر لڑکوں یا اساتذہ کی جانب سے لڑکیوں کا مذاق اڑانا بھی ایک ایسا رویہ رہا ہے، جس کے نتیجے میں لڑکیوں کو اسکول چھوڑنا پڑتا ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ایکشن انڈیا کی رابطہ کار سلیکھا سنگھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں اتر پردیش اور دہلی میں جن دیہی اسکولوں میں کام کرتی ہوں، ان میں سے کچھ میں لڑکوں کوماہواری سے متعلق آگاہی کے لیے معاون کمیونٹی میں شامل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ لڑکوں کو اس قدرتی جسمانی عمل کے بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بہت اہم ہے۔‘‘
مرلی کرشنن، نئی دہلی (ش ر⁄ ع ا)