مارشل لاء حکومت کا تختہ گرانے کے مترادف نہیں، تھائی فوج
20 مئی 2014فوج نے متحارب گروپوں کو اپنی اپنی حدود میں رہنے کی ہدایت کی ہے جبکہ میڈیا سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ قومی سلامتی کے منافی مواد نشر نہ کرے۔
تھائی لینڈ کی فوج نے چھ ماہ سے جاری مظاہروں اور ہنگامہ آرائی کے بعد منگل کو ملک بھر میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کیا۔ مظاہروں کی وجہ سے تھائی لینڈ ایک باقاعدہ اور فعال حکومت سے محروم ہو گیا تھا۔
دارالحکومت بنکاک کی سڑکوں پر فوج کا گشت جاری ہے جبکہ نگران حکومت بھی بدستور قائم ہے جس کی سربراہی خودساختہ جلاوطن سابق وزیر اعظم تھاکسن شناواترا کے حامی کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مارشل لاء کا اعلان ٹیلی وژن پر مقامی وقت کے مطابق علی الصبح تین بجے کیا گیا۔ اس اعلان سے قبل نگران حکومت فوج کے اس منصوبے سے بے خبر تھی۔
فوج کے سربراہ جنرل پرایُت چان اوچا کا کہنا تھا کہ پرتشدد مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں اور نقصان کے تناظر میں فوج عوامی سکیورٹی کا انتطام سنبھال رہی ہے۔ تھائی لینڈ میں گزشتہ برس نومبر سے جاری احتجاج کے دوران تقریباﹰ تیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جنرل پرایُت کا کہنا تھا: ’’ہمیں خدشہ ہے کہ یہ تشدد پورے ملک کی سکیورٹی کے لیے نقصان دِہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے، ہم نے مارشل لاء نافذ کر دیا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’میں تمام متحرک گروپوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس بحران سے نکلنے کے لیے اپنی تمام کارروائیاں روک دیں اور ہم سے تعاون کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا: ’’مجھے یہ اختیار چاہیے، ورنہ میری کون سُنے گا۔‘‘
فوج کے ایک ترجمان کے مطابق جنرل پرایُت نے منگل کی سہ پہر تمام حکومتی ایجنسیوں کے سربراہوں کا ایک اجلاس بھی طلب کیا۔ صوبائی گورنروں اور اعلیٰ حکام کو علاقائی مراکز پر فوجی قیادت سے ملاقات کے لیے طلب کیا گیا ہے۔
حکومت مخالف اور حکومت نواز، دونوں ہی گروپوں کے مظاہرین دارالحکومت بنکاک میں مختلف مقامات پر ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کے درمیان جھڑپوں کا راستہ روکنے کے لیے فوج نے انہیں اپنی اپنی جگہوں پر رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مارچ نہ کریں۔
فوج نے ذرائع ابلاغ سے بھی کہا ہے کہ وہ ایسا مواد نشر یا شائع نہ کریں جس سے قومی سلامتی متاثر ہو۔ اس کے ساتھ ہی حکومت مخالف اور حکومت نواز دس سیٹیلائٹ ٹیلی وژن چینلوں کو نشریات روکنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔