لاطینی امریکہ میں موجود خطے کی سب سے بڑی جیل
لاطینی امریکی ملک ایل سیلواڈو ہمیشہ سے جرائم کا گڑھ رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس خطے کی سب سے بڑی جیل بھی اسی ملک میں موجود ہے۔ اس جیل میں دنیا کے خطرناک ترین مجرم قید ہیں۔
لاطینی امریکہ کی بدترین جیلوں میں سے ایک
لاطینی امریکہ کی سب سے بڑی جیل میں اس وقت سینکڑوں قیدی اپنی اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یہاں تمام قیدی بغیر گدوں کے اسٹیل کے بنک بیڈز پر سوتے ہیں۔ سخت سکیورٹی کی وجہ سے باہر کے کسی بھی شخص کو یہاں آنے کی یا کسی قیدی سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں کچھ قیدی عمر قید کی اور کچھ کو تو 200 سال تک قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
ہائی سکیورٹی جیل 15000 قیدیوں کا مرکز
سی ای سی او ٹی میں اس وقت تقریباً 15,000 قیدی مقید ہیں، تاہم اس میں ایک وقت میں 4 ہزار قیدیوں کے رہنے کی گنجائش موجود ہے۔ یہ ہائی سکیورٹی جیل صدر نیب بوکیلے کی جانب سے ایک ایسے پروگرام کا اہم حصہ ہے جسے خصوصی طور پر ان جرائم پیشہ افراد کے گروہوں سے نمٹنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔
جیل کی زندگی سے سزائے موت بہتر؟
اس تصویر میں جرائم پیشہ گینگ کے ایک رکن بیریو 18 کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسے 200 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے حالیہ دورے کے دوران جیل کے ڈائریکٹر بیلارمینو گارسیا نے یہاں کے قیدیوں کو نفسیاتی مریض قرار دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ یہی وجہ ہے کہ یہ تمام مجرم اس جیل میں قید ہیں کیونکہ یہاں سے فرار ہونا تقریبا ناممکن ہے۔
جیل کی مسلسل نگرانی
قیدیوں کو جیل کے بڑے مرکزی راہداری میں 30 منٹ کی ورزش کرنے کے لیے دن میں صرف ایک بار جیل کے بیرکس سے باہر نکلنے کی اجازت ہوتی ہے۔ تقریبا 1000 جیل حکام، 600 فوجی اور 250 پولیس اہلکار مسلسل اس جیل کی حفاظت پر مامور ہیں اور سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے اس جیل میں 24 گھنٹے قیدیوں کی لمحہ بہ لمحہ نگرانی کی جاتی ہے۔
باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں
ورزش کے علاوہ یہاں کے قیدی اس وقت بھی کال کوٹھڑیوں سے باہر نکل سکتے ہیں جب ویڈیو لنک کے ذریعے ان کی عدالتی سماعت ہوتی ہے۔ اس جیل میں قید 41 سالہ سیکو نے میڈیا کو بتایا تھا کہ اسے اپنے پر تشدد ماضی پر نہایت افسوس ہے۔ اس نے مزید کہا، ’’ ہم جانتے ہیں کہ یہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘
بے گناہ افراد کی گرفتاری اور رہائی
ایل سیلواڈو میں بے گناہ افراد کی گرفتاریاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں ملک کے صدر نیب بوکیلے نے اعتراف کیا تھا کہ گرفتار کیے جانے والوں میں آٹھ ہزار بےگناہ افراد بھی شامل تھے، تاہم ان کے مطابق ان تمام افراد کو اب رہا کر دیا گیا ہے۔