قیدیوں کو رہا کیا جائے، پاکستانی طالبان کی طرف سے مذاکرات کی شرط
3 فروری 2013تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کی طرف سے یہ مطالبہ سات منٹ دورانیے کی ایک ویڈیو میں دہرایا گیا ہے۔ احسان نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی حکومت مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔
اس ویڈیو پیغام میں احسان اللہ احسان کا کہنا ہے، ’’ہمارے شکوک اس بارے میں بڑھ رہے ہیں کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی پاکستان، اسلام اور مسلمانوں کی خاطر ہم کچھ وقت مزید انتظار کریں گے۔‘‘
گزشتہ برس 28 دسمبر کو منظر عام پر آنے والی ایک ویڈیو میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے پیغام دیا تھا کہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ فوری مذاکرات کرنے کے ليے تیار ہیں تاہم وہ غیر مسلح نہیں ہوں گے۔
تازہ ویڈیو پیغام میں احسان اللہ احسان نے پاکستانی فوج پر اپنی غیر اعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ فوج سابق امن معاہدوں کی خلاف ورزی کر چکی ہے۔ احسان کے مطابق حکومت کو مسلم خان کو چھوڑنا ہوگا۔ مسلم خان 2009ء میں فوجی آپریشن سے قبل سوات پر قبضہ کرنے والے طالبان کمانڈر مولانا فضل اللہ کا اہم ساتھی ہے۔
پاکستانی فوج نے مسلم خان اور تحریک طالبان پاکستان کے چار دیگر ارکان کو ستمبر 2009ء میں گرفتار کیا تھا۔ طالبان کی طرف سے مذاکرات کی شرط کے طور پر ان پانچ ارکان کے علاوہ طالبان ہی کے ساتھی مولوی عمر نامی شخص کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق پاکستانی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی اس پیشکش پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ یہ پیشکش پاکستانی صوبہ خیبرپختونخواہ کی جنوب مشرقی تحصیل سرائے نورنگ میں واقع پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ پر حملے کے ایک روز بعد سامنے آئی ہے۔ اس حملے میں سکیورٹی فورسز کے 13 اہلکار جبکہ 11 سویلین ہلاک ہوئے تھے۔ سکیورٹی فورسز کی طرف سے جوابی کارروائی میں 12 حملہ آور بھی ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری احسان نے ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے قبول کی تھی۔
طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے پاکستانی حکومت کی اتحادی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ کراچی میں ایک سیاسی طاقت سمجھی جانے والی یہ جماعت اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف سخت نقطہ نظر رکھتی ہے۔
طالبان کی طرف سے گزشتہ ماہ ایم کیو ایم پر دو حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ ان حملوں میں ایک صوبائی رکن پارلیمان سمیت کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
aba/as (dpa)