قاہرہ بم دھماکوں سے گونج اٹھا
24 جنوری 2014مصر کے سرکاری میڈیا کے مطابق سب سے پہلا دھماکا قاہرہ کے وسط میں واقع پولیس کے ہیڈ کوارٹرز پر مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بج کر پندرہ منٹ پر ہوا۔ حکام نے کہا ہے کہ اس کار بم حملے میں چار افراد ہلاک اور تقریبا ستّر زخمی ہوئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں خودکش حملہ آور بھی شامل ہے۔ اس دھماکے سے پولیس ہیڈ کوارٹرز کے قریب واقع اسلامی آرٹ میوزیم کی عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
دوسرا بم دھماکا اس واقعے سے کوئی ایک گھنٹہ بعد ہوا، جس میں ایک خام دیسی ساختہ بم کے ذریعے پولیس کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ البحوت میٹرو اسٹیشن کے قریب ہونے والے اس دھماکے میں ایک شخص ہلاک جبکہ دیگر آٹھ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
تیسرے بم دھماکے میں طلبیہ نامی علاقے میں واقع پولیس ڈائریکٹوریٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ ابتدائی طور پر اس واقعے میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے بارے میں اطلاعات میسر نہیں ہیں۔
یہ حملے 2011ء میں آنے والے انقلابِ مصر کی سالگرہ سے ایک روز پہلے ہوئے ہیں۔ تین برس پہلے پچیس جنوری کو سابق صدر حُسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا تھا۔ کل ہفتے کے روز فوج کے حامیوں اور مخالفین نے ریلیاں نکالنے کا اعلان کر رکھا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس دوران مزید ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق دھماکوں کے بعد فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ حملوں کے بعد مسلح افراد نے عمارتوں پر فائرنگ بھی کی، تاہم اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ ان حملوں کے بعد دارالحکومت کے مرکز سے دھوئیں کے بادل اُٹھتے دیکھے جا سکتے تھے۔
پولیس کی طرف سے فوری طور پر دھماکوں کی تحقیقات کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی بھی گروپ یا تنظیم نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ گزشتہ روز انصار بیت المقدس نامی ایک گروپ نے ایک آڈیو پیغام جاری کیا تھا، جس میں واضح طور پر پولیس کو دھمکی دی گئی تھی۔
ماضی میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت ملک میں ہونے والی مختلف پرتشدد کارروائیوں کا ذمہ دار معزول صدر محمد مرسی کی حمایتی جماعت اخوان المسلمون کو ٹھہرا چکی ہے اور اسی بنیاد پر اس سیاسی و مذہبی جماعت کو ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دیا گیا تھا۔